پی ٹی وی سے جعلی ڈگری والے 82افراد کو نکالا،ایم ڈی،پی اے سی کا ایف آئی آر درج کرانے کا حکم

کمیٹی کا ڈی جی پی بی سی کے حکم پر وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر 17 ریٹائر ملازمین کو دوبارہ کنٹریکٹ پر رکھنے پر اظہار تشویش پاکستان مونومنٹ میں قواعد و ضوابط سے ہٹ کر فنانس ڈویژن نے ساڑھے تین سو افراد کو بھرتی کیا ، تحقیقات کرائی جائیں، روحیل اصغر

پیر 7 ستمبر 2015 17:23

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 07 ستمبر۔2015ء) مینجنگ ڈائریکٹر پی ٹی وی ڈاکٹر عبدالمالک نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا کہ ادارے سے جعلی ڈگری کے حامل 82 افراد کو نکالا ہے لیکن ان کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرائی۔جس پر کمیٹی نے فوری ایکشن لیتے ہوئے 82 افراد کے خلاف فوری ایف آئی آر درج کرا کے 60 دنوں میں رپورٹ طلب کر لی جبکہ کمیٹی نے ڈی جی پی بی سی کے حکم پر وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر 17 ریٹائر ملازمین کو دوبارہ کنٹریکٹ پر رکھے جانے کے حوالے سے اظہار تشویش کرتے ہوئے ہدایت کر دی کہ آئندہ قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کے کام نہ کیا جائے شیخ روحیل اصغر نے کمیٹی میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان مونومنٹ میں قواعد و ضوابط سے ہٹ کر فنانس ڈویژن نے ساڑھے تین سو افراد کو بھرتی کیا گیا ہے تحقیقات کرائی جائیں ۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے حکومت سے سفارش کی کہ پی ٹی وی اور پی بی سی کو حقائق کو مدنظر رکھ کر فنڈز فراہم کئے جائیں ۔پیر کے روز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس کنونیئر سردار عاشق حسین گوپانگ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں مینجنگ ڈائریکٹر پی ٹی وی ڈاکٹر عبدالمالک نے کمیٹی کو ایڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے حوالے سے آگاہ کیا کہ ماضی میں جو بے ضابطگیاں ادارے میں ہوئیں وہ اب نہیں ہو رہی ہیں حالانکہ آج بھی دن میں بھرتی کے حوالے سے سفارشیوں کے سینکڑوں فون آتے ہیں لیکن میں نظر انداز کر دیتا ہوں ۔

پی ٹی وی کو سنبھالے سوا سال ہوا سب سے پہلے پانچ سال کے آڈٹ کا حکم دیا اور چھ سے سات سال کے دوران قومی ادارے پر دو ارب روپے کا بوجھ بھی اتارا ہے۔ پی ٹی وی اب منافع میں جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ 2007 سے پی ٹی وی کے گریڈ ایک سے لے کر 9 تک کے ملازمین کو عیدی کی مد میں ہر سال 4 ہزار روپے دیئے جاتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ قومی ادارے سے جعلی ڈگری کے حامل 82افراد کو نکالا ہے لیکن ان سے ریکوری نہیں کی گئی ۔

صرف ان سے جان چھڑٰائی ہے جس پر کمیٹی نے شدید اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ جعلی ڈگری حامل افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہونی چاہئے کیوں نہیں ہوئی ۔ جس پر عبدالمالک نے کہا کہ ایسے افراد سے ریکوری تو ہونی نہیں بلکہ ایک ایک وکیل کو ایک ایک کیس کا 25 ہزار روپے ادا کرنا پڑے گا جس سے مزید ادارے پر بوجھ پڑے گا جس پر کمیٹی نے 82 جعلی ڈگری حامل افراد کے خلاف فوری ایف آئی آر درج کرا کے 60 دنوں میں رپورٹ طلب کر لی دوسری جانب آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ 1999 پی بی سی سے ریٹائر ہونے والے 17 ملازمین کو دوبارہ سے کنٹریکٹ پر ڈی جی نے رکھ لیا جو کہ وزیر اعظم کے پاس اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ملازمین کو دوبارہ ملازمت کی منظوری دیں ۔

لیکن ڈی جی نے وزیر اعظم کے ذاتی اختیارات کا غلط استعمال کیا جو کہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ وزیر اعظم سیکرٹری سیکرٹریٹ کی جانب سے بھی کہا گیا ہے کہ 1999 سے رکھے گئے ملازمین سے 4.259 ملین روپے بھی ریکور کئے جائیں جو کہ قواعد و ضوابط کے خلاف بھرتی کئے گئے تھے۔اس پر ڈی جی پی بی سی نے کمیٹی کو بتایا کہ پی بی سی کو حکومت کی جانب سے 4330 ملازمین بھرتی کرنے کی اجازت ہے لیکن اس وقت 2875 ملازمین پی بی سی میں کام کر رہے ہیں اور 1455 ملازمین کی ابھی بھی کمی ہے لیکن پی بی سی نے این ٹی ایس کے تحت 10 ہزار افراد سے ٹیسٹ لیا جس میں 300 امیدواروں نے ٹیسٹ کلیئر کیا اب انہیں انٹرویو کے لئے بلایا جائے گا اور صاف شفاف بھرتی کی جائے گی۔

جبکہ ڈی جی نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ آئندہ قواعد و ضواط کے خلاف کوئی بھرتی نہیں ہو گی جبکہ کمیٹی کی جانب سے بھی حکومت کو سفارش کی گئی کہ وہ پی ٹی وی اور پی بی سی کے حقائق پر مبنی خرچوں کو دیکھ کر ان کے مطابق فنڈز فراہم کرے۔کمیٹی نے شیخ روحیل اصغر نے انکشاف کیا کہ فنانس ڈویژن کی جانب سے پاکستان مونومنٹ نے قواعد سے ہٹ کر 350 افراد کو بھرتی کیا گیا اس کا ثبوت فراہم کر سکتا ہوں ۔کمیٹی اعلی تحقیقات کا حکم دے

متعلقہ عنوان :