پاکستان ریلوے، ای او بی آئی، پاکستان پوسٹ و دیگر سرکاری محکموں میں لاکھوں پنشنروں کی وفات کے بعد ان کے نام پر پنشن وصول کی جا رہی ہے، ایک ریٹائرکمشنراوران کی بیوہ کئی سال پہلے وفات پاگئے، ان کی دوشادی شدہ بیٹیاں تاحال انک نام پرپنشن وسول کررہی ہیں

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں انکشاف، صدرنیشنل بینک چھ لاکھ گھوسٹ پنشنروں کی موجودگی بارے اپنے بیان سے منحرف قائمہ کمیٹی نے وفاقی حکومت کے 25لاکھ پنشنروں بارے اے جی پی آر، وزارت خزانہ اور پاکستان پوسٹ کے اعداد و شمارکو مسترد کر دیا

پیر 7 ستمبر 2015 18:05

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 07 ستمبر۔2015ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان ریلوے، ای او بی آئی، پاکستان پوسٹ و دیگر سرکاری محکموں کے لاکھوں پنشنروں کی وفات کے بعد ان کے نام پر پنشن وصول کی جا رہی ہے، ایک ریٹائر کمشنراوران کی بیوہ کئی سال پہلے وفات پاگئے تاہم ان کی دوشادی شدہ بیٹیاں تاحال انک نام پرپنشن وسول کررہی ہیں جبکہ صدرنیشنل بینک سیداقبال اشرف چھ لاکھ گھوسٹ پنشنرونی موجودگی بارے اپنے سابقہ بیان سے منحرف ہوگئے ، قائمہ کمیٹی نے وفاقی حکومت کے 25لاکھ پنشنروں بارے اے جی پی آر، وزارت خزانہ اور پاکستان پوسٹ کے اعداد و شمارکو مسترد کر دیاہے، چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ پنشنروں کے اعداد و شمار درست نہیں، 6لاکھ مبینہ گھوسٹ پینشنر کا ریکارڈ فراہم کیا جائے، آڈیٹر جنرل آف پاکستان تمام پینشنروں کا آڈٹ کر کے 15روز میں رپورٹ پیش کریں۔

(جاری ہے)

پیر کے روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ، ریونیو، شماریات ،اقتصادی امور و نجکاری کا اجلاس چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا، جس میں 6لاکھ مبینہ گھوسٹ پینشنروں کی موجودگی کے سنگین معاملے کا جائزہ لیا گیا۔ اس حوالے سے صدر نیشنل بینک آف پاکستان سید اقبال اشرف سے پوچھا گیا تو وہ اپنے سابقہ بیان سے منحرف ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ بلاشبہ گھوسٹ پنشنر موجود ہیں جن کی تحقیقات کی رہی ہیں تاہم 6لاکھ گھوسٹ پنشنروں کی تصدیق نہیں کر سکتا۔ حالانکہدوہفتے قبل خود انہوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ نیشنل بینک کی فہرست سے 6لاکھ پینشنر خارج کئے گئے جو گھوسٹ تھے۔سیداقبال اشرف نے کہاکہ 2012میں بھی ریکارڈ کو بہتر کیا گیا اور 2009میں سپریم کورٹ میں فیصلہ دیا تھا کہ نیشنل بنک آف پاکستان کے علاوہ دیگر بنکوں سے بھی پنشن دی جائے ۔

جسکی وجہ سے ہمارے 21لاکھ پنشنروں کی تعداد کم ہو کر 2014میں 14لاکھ ہو گئی تھی جبکہ 2015میں 16لاکھ تک پہنچ چکی ہے ۔ہمارے صارفین کی تعداد کم ہوئی ہے اور انکی ہمارے پاس فائنل لسٹ نہیں ہوتی ہم سہولت کار کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ہم اے جی پی آر کی مقرر کردہ فہرست کے مطابق پنشن کی رقم فراہم کرتے ہیں ۔پینشنروں کی سہولت کے لئے اے ٹی ایم کارڈز بھی جاری کئے ہیں ۔

قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا و دیگر ارکان نے اسپرشدید برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ قائمہ کمیٹی کو بتایا جائے وہ 6لاکھ پینشنر کون تھے اورکہاں چلے گئے، جن کا نیشنل بینک کی فہرست سے اخراج ہوا، ان کا مکمل ریکارڈ فراہم کیا جائے۔ دریں اثناء اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو نے بتایا کہ ملک بھر میں 25لاکھ پینشنر موجود ہیں جو وفاقی محکموں و اداروں سے ریٹائرڈ ہیں۔

اس کے علاوہ ساڑھے چار لاکھ ای او بی آئی کے پینشنر ہیں۔ مسعود شیروانی انچارج ملٹری اکاؤنٹس کا کہنا تھا کہ تینوں مسلح افواج کے پینشنروں کی کل تعداد 12 لاکھ ہے جن میں 10لاکھ پاکستان پوسٹ آفس سے پینشن بک کے ذریعے پنشن وصول کرتے ہیں جبکہ پونے دولاکھ نیشنل بینک سے اور بقیہ کو براہ راست پنشن ادا کی جاتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کے ارکان الیاس بلور اور کامل علی آغا نے جب یہ سوال اٹھایا کہ مذکورہ 25لاکھ پنشنرزندہ موجود ہیں اور خود آ کے وصول کرتے ہیں۔

اے جی پی آر نے کہا کہ ان میں بعض وفات پا چکے ہیں اور بعض ضعیف ہونے کی وجہ سے اپنے عزیز و اقارب کو پنشن لینے کیلئے بھیجتے ہیں جبکہ فوت شدگان کی بیوہ اور 21سال کی عمر کے بچوں کو پنشن دینے کا ایک فارمولہ موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر پنشنر کو چھ ماہ بعد لائف سرٹیفکیٹ جمع کرانا ہوتا ہے جبکہ اس کی فوتگی کی صورت میں بیوہ اور بچے ہر چھ ماہ بعد سرٹیفکیٹ جمع کرانے کے پابند ہیں ورنہ پیشن روک لی جاتی ہے۔

انہوں نے کہاکہپنشن پیمنٹ آڈر اور ڈائریکٹ کریڈٹ سسٹم کے تحت جاری کی جا رہی ہے اور ایک بندے کی ریٹائرمنٹ کے وقت اکاونٹس آفس سے پنشن پیمنٹ آرڈر جاری کیا جاتا ہے ۔ پنشنر کو ایک پنشن بک فراہم کی جاتی ہے جو ہر مہینے نیشنل بنک یا پوسٹ آفس سے اپنی پنشن حاصل کرتا ہے اور سرکاری ادارے ایک طے شدہ طریقے کے مطابق اے جی پی آر کو اپنے ملازمین بارے معلومات فراہم کرتے ہیں ۔

اے جی پی آر فنگر پرنٹس و دیگر معلومات حاصل کرتا ہے۔جس پر اراکین کمیٹی نے کہا کہ پینشنر کی وفات کی اطلاع کوئی فراہم نہیں کرتا اس لئے ان کے لواحقین سالوں سے غیر قانونی طور پر پنشن حاصل کرتے رہتے ہیں ۔صوبائی اکاونٹنٹ جنرل خیبر پختونخواہ نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ صوبے میں گھوسٹ پنشنروں کی تصدیق کیلئے ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو اسی ماہ اپنا کام شروع کر دیگی تاہم بنکوں کی جانب سے کمیٹی کومعلومات نہیں فراہم کی جارہیں۔

قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ 3لاکھ 93ہزار دارالحکومت اسلام آباد، 6لاکھ 37ہزارپنجاب، 1لاکھ 20ہزار صوبہ سندھ، 47ہزاربلوچستان جبکہ 1لاکھ 51ہزارخیبرپختونخوامیں موجودہیں ،پاکستان ریلوے کے 1لاکھ 9ہزاراور پاکستان پوسٹ کے 23ہزار 7سو پینشنرشامل ہیں ۔ڈائریکٹ کریڈٹ سسٹم کے ذریعے 3 لاکھ50ہزار افراد پنشن حاصل کر رہے ہیں اور پینشن بک اور نیشنل بنک کے ذریعے 22لاکھ ملازمین پنشن حاصل کر رہے ہیں ۔

اراکین کمیٹی نے کہا کہ جب تک ڈائریکٹ کریڈٹ سسٹم اور بائیو میٹرک کے ذریعے پنشن ادا نہیں کی جائیگی معاملات میں بہتری نہیں لائی جاسکتی ۔چیئر مین کمیٹی سلیم مانڈوی والانے کہا کہ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ سسٹم میں بہت سی کمزوریاں ہیں ایک نیا سسٹم متعارف کرا کر حکومت اور ملک کا فائدہ کیا جائے ۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دفترکے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ چندروز پہلے نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں کہ اس حوالے سے آڈٹ کیاجائے جس کی رپورٹ پندرہ دن بعدآئیگی ۔جس پر چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ سینٹ کی یہ کمیٹی اس رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد اپنی سفارشات مرتب کریگی

متعلقہ عنوان :