کم آمدنی والے لوگوں کیلئے گھروں کی تعمیر،سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبوں سے مختص بجٹ کی تفصیلات طلب کر لیں

عوام الناس کو حقوق کی فراہمی اور آئین و قانون پر عملد کرانا کوئی تجاوز نہیں ہے اگر یہ تجاوز ہے تو ہم کرتے رہیں گے،چیف جسٹس جواد ایس خواجہ دریا کنارے آبادی ہر سال سیلاب برد ہوتی ہے، اربوں کے مویشی، فصلیں،مکانات تباہ ہوتے ہیں،حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی،جسٹس دوست محمد اسلام آباد میں کچی آبادی گرانے کے مقدمے کی سماعت،حکم امتناع برقرار، دس روز میں رپورٹس طلب،جائزہ لے کر باضابطہ آرڈر جاری کرینگے،عدالت

پیر 7 ستمبر 2015 20:08

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 07 ستمبر۔2015ء) سپریم کورٹ نے کم آمدنی والے لوگوں کے لئے کم قیمت گھروں کی تعمیر کے بارے میں 2001ء سے 2015ء تک وفاق اور صوبوں سے مختص بجٹ کی تفصیلات طلب کر لی ہیں جبکہ وفاق اور صوبوں کو ہدایت کی ہے کہ عدالت کو بتایا جائے کہ آرٹیکل 9،14،25 اور 38 کے نفاذ اور عملدرآمد کے بارے میں اب تک کیا اقدامات کئے گئے ہیں کچی آبادیوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ عدالت نے کچی آبادیوں کو گرانے کے بارے میں حکم امتناعی بھی برقرار رکھا ہے۔

تین رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ عوام الناس کو حقوق کی فراہمی اور آئین و قانون پر عملد کرانا کوئی تجاوز نہیں ہے اگر یہ تجاوز ہے تو ہم کرتے رہیں گے سرکار کہتی ہے کہ ان کے پاس غریبوں کے لئے کوئی پیسہ نہیں اس لئے آئین پر عمل نہیں کرسکتے طورخم اور چمن بارڈر پر چھ ارب روپے ماہانہ زرمبادلہ ضائع ہورہا ہے عوام کی باتیں کرنے والوں نے بیالیس سال گزار دیئے مگر غریبوں کو سستے مکانات نہ دیئے جاسکے ۔

(جاری ہے)

پچیس ا یکڑ پر مشتمل کچی بستی تو گرادی گئی مگر سینکڑوں ایکڑ اراضی پر قبضہ کا کسی کو خیال نہیں جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ دریا کنارے رہنے والی آبادی ہر سال سیلاب برد ہوتی ہے اور اربوں روپے کے مویشی ، فصلیں اور مکانات تباہ ہوجاتے ہیں حکومتوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اگر غریب ملازمین کو بھگا دیں گے تو امرا طبقہ کی بیگمات کے کام کون کرے گا ان کو تو کوئی کام نہیں آتا ہم کس طرح لوگوں کا لائف اسٹائل بدل سکتے ہیں ہم نے تو آج بھی لوگوں کو اپنا محکوم سمجھ رکھا ہے ضروریات زندگی کی فراہمی اور بنیادی حقوق کا تحفظ کے بارے میں سیاسی جماعتوں نے خوبصورت باتوں کی حد تک اپنے منشور میں درج کر رکھا ہے مگر عمل نہیں کیا پاکستان میں آئینی امتیاز بدترین شکل میں موجود ہے ایک طرف مراعات یافتہ طبقہ دوسری طرف ایک غریب کو جھونپڑی تک بنانے کی اجازت نہیں ہے جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ سی ڈی اے کے قانون میں غریب کے لئے کچھ نہیں ہے ۔

یہ ریمارکس پیر کے روز دیئے ہیں ۔ اسلام آباد میں کچی آبادی کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے دوران سی ڈی اے حکام اسلام آباد انتظامیہ اور دیگر حکام پیش ہوئے ۔ سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن سرور خان بھی پیش ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ ہم نے دو اجلاس منعقد کئے تھے اور تمام تر حالات پر بحث کی گئی تھی ۔ جسٹس دوست نے کہا کہ تمام تر ڈاکومنٹس ساتھ لگا دیئے گئے ہیں کیونکہ اب تک اس حوالے سے کوئی ریکارڈ نہیں ہے کیا ہم ان کے دفتر جائیں اور جا کر کاغذات ڈھونڈیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی رپورٹ آئی ہے ایک خط پر ازخود نوٹس لیا تھا این اے آر سی کے حوالے سے ان کے پاس چودہ سو ایکڑ رقبہ ہے ۔ وہاں پرزرعی تحقیق ہوئی ہے وہ اسلام آباد کے اندر ہے اس پر لوگوں کی نظریں لگی ہیں کہ یہ چودہ سو اکیڑ رقبے پر ہاتھ صاف کردیں یہاں عالی شان مکانات ، گولف کورسز پارک اور اونچی اونچی عمارات کھڑی کردی جائیں ۔

آئی الیون میں پچیس ایکڑ رقبہ ہے لوگوں کو نکال کر پتہ نہیں کہاں پھینکا گیا ہے ؟ منٹو کہا کہ انہوں نے رپورٹ دیکھ لی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ رپورٹ میں کافی کچھ موجود ہے جسے آپ نے چودہ سو ایکڑ کی بات کی ہے جب سے ہم نے یہ مقدمہ لیا ہے لوگ دھڑا دھڑ آرہے ہیں اور انہیں سی ڈی اے سے بہت تحفظات ہیں ۔ جسٹس دوست نے کہا کہ یہ سب ریکارڈ پر ہے پچیس سے لے کر چالیس سال گزر گئے لوگ رہ رہے ہیں ابتداء میں ان لوگوں کو کس نے اجازت دی تھی وقت پر اس معاملے کو کیوں نہیں نمٹایا گیا ذمہ داروں کیخلاف کیا ایکشن لیا چیف جسٹس نے منٹو سے کہا کہ آپ نظریاتی ہوسکتے ہیں ہمارے بھی نظریات ہیں مگر ہم اپنے نظریات کو گھر چھوڑ کر صرف آئین و قانون کا اطلاق کریں سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس کیس میں آئین کا کیا مطلب ہے ؟ہر شخص جس کے پاس اس ملک کے اختیارات ہیں حلف لیا ہوا ہے میں نے ڈیسک کے بائیں طرف حلف نامہ رکھا ہوا ہے جسے ہر دس روز بعد پڑھتا ہوں کہ کہیں یہ حلف میں بھول نہیں گیا حلف میں ایک بات ہم سب کے لئے ایک جیسی ہے ہم عوام الناس کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرینگے آئین کا تحفظ کرینگے منٹو نے کہا کہ ایک شخص آیا اور کہا کہ زلزلے میں کافی لوگ فوت ہوئے سی ڈی اے نے وہ اراضی قبضہ میں لے کر بیچ دیں اور جن کی اراضی تھی ان کو کچھ نہیں دیا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے یہ مقدمہ ایک درخواست کی بنیاد پر شروع کیا تھا اس میں دائرہ محدود ہے آپ جو کچھ کررہے ہیں اس میں پھیلاؤ بڑھ جائے گا ۔ ہر چیز ممکن ہے اگر آپ وہ خطوط پڑھ لیں تو روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں مجھے آتے ہیں مجھے ایک روز قبل تقریر کرنے کا موقع ملا یہ ریاستی اداروں کی ناکامی ہے اگر اقلیتی رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ ہم تین آدمی اٹھ کر ان کی سمادھیوں ، چرچوں کے قبضے دلادینگے یہ سب اداروں کا کام ہے اور انہوں نے ہمارے احکامات پر عملدرآمد کرانا ہوتا ہے وہ یہ سب نہیں کررہے ہیں جسٹس فائز نے کہا کہ رپورٹ کا جائزہ لیا ہے سی ڈی اے کے قانون میں غریب لوگوں کے لیے کچھ نہیں ہے ۔

منٹو نے سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی رپورٹ پڑھ کر سنائی جس میں کہا گیا ہے کہ ہاؤسنگ کی سہولیات انتہائی کم ہیں ہاؤسنگ کے اخراجات بہت زیادہ ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہماری کوئی ہاؤسنگ پالیسی ہے منٹو نے کہا کہ جی ہاں پالیسی موجود ہے مگر اس پر کوئی عمل نہیں کررہا ہے ۔ جسٹس فائز نے کہا کہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے سی ڈی اے محض خانہ پری کررہا ہے اور عملی طور پر کچھ بھی نہیں کررہا ہے ہاؤسنگ سکیم اگر کوئی بنتی ہے تو غریب آدمی اس میں کس طرح سے شامل ہوگا ۔

منٹو نے کہا کہ آئین میں لوگوں کے حوالے سے ان کے حقوق واضح طور پر لکھ دیئے گئے ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ہمارے پاس آنے والے اکثر آئین نہیں پڑھا ہوتا آرٹیکل 9,14,25 تو سب کو آنا چاہیے جب کوئی بھی شخص آئینی مندرجات کا مطالعہ کرے گا اگر اس کے دل کی جگہ پتھر نہیں ہے تو پھر اس کو ضرور سمجھ آئیگی ۔ جسٹس فائز نے کہا کہ 130 مربع یارڈ پلاٹ کا اسٹینڈرڈ تو لندن میں بھی نہیں ہے جو اراضی کی قیمتیں چل رہی ہیں غریب آدمی کیسے اپنا گھر بنائے گا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہاؤسنگ کے مسائل صرف پاکستان کے نہیں پوری دنیا میں ہیں مگر وہاں کوشش کرکے حل کرنے کے لئے اقدامات بھی تو کئے گئے ہیں مگر یہاں تو کوئی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ منٹو نے کہا کہ 2011ء میں ہاؤسنگ پالیسی آئی تین صوبوں نے قوانین بنائے مگر اسلام آباد میں کچھ نہیں کیا جارہا ہے جسٹس دوست نے کہا کہ بڑی تعداد میں آبادی دریا کناروں پر رہتی ہے ہر سال وہ بے گھر ہوجاتے ہیں ہر سیلاب کے دوران اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے حکومتوں کے کان پر جو ں تک نہیں رینگتی کے پی کے سے لے کر سندھ تک کتنے لوگ ہر سال ڈوبتے ہیں مویشی اور گھر تباہ ہوجاتے ہیں حالات دیکھ کر رونا آجاتا ہے اسلا آباد تو ابھی محفوظ شہر ہے ان لوگوں کا کیا ہوگا چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے اس معاملے کو کسی نہج تک ضرور پہنچانا ہے ۔

اس کو چھوڑ نہیں سکتے ۔ اس معاملے میں پیش رفت کیسے کی جائے بہت جلد نتیجے پر پہنچنا چا ہتے ہیں منٹو نے کہا کہ مجھے اب مزید کسی بیان دینے کی ضرورت نہیں سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن اور نسیم اے صدیقی کی رپورٹس جامع ہیں جسٹس دوست نے کہا کہ ایک ایشو ان رپورٹس میں زیر بحث نہیں لایا گیا کوٹھیو ں میں کام کرنے والے غریب ملازمین کو بھگا دیا گیا تو امراء کا کیا بنے گا کہ جن کی بیگمات کو کوئی کام تک نہیں کرنا آتا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یونان سے آنے والے نے نقشہ تو بنالیا مگر باقی معاملات نہیں دیکھے منٹو نے کہا کہ ان کچی آبادیوں کو تسلیم کیا گیا ہے جو بڑے لوگوں کے گھروں کے قریب ہیں اور ان کے گھروں میں یہ لوگ کام کرتے ہیں عدالت نے بلال منٹو سے کہا کہ آپ تجویز دیں کہ عدالت کس قانون کے تحت آرڈر جاری کرے ۔ جسٹس دوست نے کہا کہ ایسے ادارے موجود ہیں جو ایک کینال کو بیس کینال میں بدل سکتے ہیں اس میں بھی ان کی خدمات حاصل کرلی جائیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کچی آبادی کے ماہر نہیں ہیں ہم ایک چیز کے ماہر ہیں کہ آئین کے مطابق فیصلے دیں اور ان پر عملدرآمد کرائیں تسنیم اے صدیقی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ لوگوں کو گھر نہ ملنا حکومتی ناکامی ہے کچی آبادی کے لئے فوری طورپر متاثرین کے لیے ایک جگہ مقرر کرے اور انہیں تمام سہولیات بھی فراہم کی جائیں ریگولیٹری فریم ورک کو بھی سی ڈی اے میں بنایا جائے جو ان تمام معاملات کی نگرانی کرسکے ۔

تمام کچی آبادیوں کو دوبارہ سے بہتر انداز میں ڈیل کیا جائے ۔ وفاق کی طرف سے عامر الرحمان پیش ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ 2001ء کی پالیسی موجود ہے جس میں کچی آبادیوں کا ذکر ہے اس میں ترمیم کے لیے غور وفکر کیا جارہا ہے اپنا گھر سکیم بھی اچھی ہے تسنیم اے صدیقی خود اس کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل نو ، چودہ ، پچیس اور اڑتیس آئین میں شروع سے شامل تھے اب تک بیالیس سال ہوگئے کوئی کام نہیں کیا گیا کوئی تو ٹائم لائن دے دیں ۔

اب تک آپ کے اقدامات ناکافی ہیں آخر کوئی تو عوام الناس کو جوابدہ ہیں ۔ جسٹس دوست نے کہا کہ 2001ء سے 2015-16ء تک کسی بھی جگہ ان معاملات کے لئے کوئی بجٹ مقرر کیا گیا ہے یا نہیں ؟ جسٹس فائز نے کہا کہ کراچی میں لوگوں نے پیسہ خرچ کیا ہے بہت سے لوگ اراضی اور مکانات خریدنے کی طاقت بھی رکھتے ہوں گے آپ ان سے رابطہ تو کریں جسٹس دوست نے کہا کہ اس میں پیسے کا معاملہ نہیں لوگوں کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے 2001ء میں جب ایک پالیسی بن گئی فزیبلٹی کے لئے بھی تو رقم رکھی گئی ہوگی عامر الرحمان نے کہا کہ پتہ کرکے بتاتا ہوں جسٹس دوست نے کہا کہ آپ جو خوبصورت باتیں کررہے ہیں یہ سب سیاسی جماعتوں کے منشور میں لکھی ہوتی ہیں لگتا ہے کہ آپ نے ان میں یہ سب نقل کیا ہے صدر ، وزیراعظم ، گورنرز ، وزراء ا علیٰ کے ملازمین کے لیے مکانات تو ہیں مگر دوسرے لوگ کہاں جائینگے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت بتائے کم قیمت پر لوگوں کو کن کن علاقوں میں گھر فراہم کرسکتی ہے جسٹس دوست نے کہا کہ آئینی امتیاز بدترین شکل میں پاکستان میں موجود ہے ایک ملازم کو تو ایئر کنڈیشن سہولیات جبکہ دوسرے کو جھونپڑی تک بنانے کی اجازت نہیں ہے ۔

جسٹس فائز نے کہا کہ حکومت بہت سی ہاؤسنگ سکیمیں صرف اپنے ملازمین کی حد تک مخصوص کرتی ہے باقی جہاں مرضی جائیں حکومت کو اس سے کوئی تکلیف نہیں ہے جسٹس دوست نے کہا کہ کیا ہم جس کے غلام رہے ہیں کب تک ان کے لائف اسٹائل اپنائینگے اور آئین و قانون کے باوجود عام لوگوں کو محکوم سمجھیں گے کسی بھی عوامی نمائندے کو منتخب کرنے کے لیے ایک ووٹ کا حق امیر غریب دونوں کو یکساں حاصل ہے مگر سہولیات میں تفریق کیوں ؟ منٹو نے کہا کہ سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے بعض تجاویز اور سمری دی گئی ہیں ان تجاویز پر اتفاق رائے بھی ہے قانونی نکات بارے بھی اس میں بات کردی گئی ہے چیف جسٹس نے کہا کہ 2001ء سے اب تک کے تمام اہداف کا تو پتہ چلے کہ آخر حکومتوں نے اس حوالے سے کیا کیا ہے ؟ بیس لائن ڈیٹا بھی موجود نہیں ہے سرکار کہتی ہے کہ ہمارے پاس پیسہ نہیں اس لئے آئین قانون پر عمل نہیں کرسکتے جسٹس دوست نے کہا کہ بہت سے علاقوں میں گیس اور تیل نکل رہا ہے وہاں پر سماجی بہبود کے کام ہوسکتے ہیں ایک ٹاسک فورس بنا دینی چاہیے چیف جسٹس نے کہا کہ 109 ارب روپے کے معاملات ہیں رائلٹی نو سو ارب روپے سے بڑھ گئی ہے طورخم اور چمن بارڈر پر کمیشن مقرر کیا تو پتہ چلا کہ ہر ماہ چھ ارب روپے کا زرمبادلہ ضائع ہورہا ہے بیالیس انٹری پوائنٹس ہیں جسٹس دوست نے کہا کہ پولیٹیکل محرر کی تعیناتی پانچ کروڑ روپے سے کم نہیں ہوگی چیف جسٹس نے کہا کہ پیسے کی کمی نہیں ہے جسٹس دوست نے کہ مختلف افراد کے لئے مختلف کیٹگریز بنا دی جائیں تو شخص جتنی رقم دے سکتا ہے اس کو اس کیٹگری کے مطابق گھر دے دیاجائے ۔

پاکستان میں کھربوں روپے ٹیکس وصول نہیں کیا جارہا ہے اگر یہ ٹیکس وصول کیا جائے تو تمام تر اسکیمیں بنائی جاسکتی ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وفاق بتادے کہ ہم نے کچھ نہیں کرنا جسٹس دوست نے کہا کہ وفاق تو ماں ہے اگر ماں کچھ کرنے کو تیار نہیں تو باقی صوبے جو بیٹے ہیں وہ کیا کرینگے بلوچستان کے لاء افسر نے بتایا کہ ہمارے ہاں کچی آبادیوں کی کوئی پالیسی نہیں ہے کے پی کے کی جانب سے لاء افسر وقار پیش ہوئے اور بتایا کہ چنگیز آباد اپر بے کو ریلوے باقاعدہ آبادی کی شکل دے رہا ہے عدالت نے وفاق سے کہا ہے کہ بتایا جائے کہ 2001ء سے اب تک لوگوں کو سستے مکانات کی فراہمی کے لئے کیا بجٹ مقرر کیا گیا ہے اور اب تک کتنے لوگوں کو کن کن علاقوں میں گھر دے دیئے گئے ہیں ۔

باقی معاملات کو مردم شماری کے بعد سامنے آسکیں گے عدالت نے آرڈر لکھوایا کہ اس سے قبل اکتیس اگست کو آرڈر جاری کیا تھا اور رپورٹس طلب کی تھیں تسنیم اے صدیقی اور سیکرٹری لاء انسپکٹر جسٹس کمیشن نے رپورٹس جمع کرادی ہیں نیشنل ہاؤسنگ پالیسی گائیڈ لائن کچی آبادی بارے جنوری دو ہزار ایک میں بنائی گئی تھی ہم چاہتے ہیں کہ پانچوں حکومتیں بجٹ بارے تفصیلات دیں اور پچھلے چودہ سالوں کا بجٹ بارے تفصیل دیں اب تک کے اخراجات اور دیگر کو فراہمی بارے منصوبہ اور دیگر معاملات سے بھی عدالت کو آگاہ کریں ۔

درج بالا رپورٹس کا جائزہ لے کر ہم باضابطہ آرڈر جاری کرینگے دس روز میں رپورٹس جمع کروائی جائیں اور کیس کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا چھبیس اگست 2015ء کو سی ڈی اے اور چیف کمشنر سے بھی رپورٹ طلب کی تھی یہ رورٹس جمع کروادی گئی ہیں اس مقدمے کی دو ترجیحات ہیں ایک اسلام آباد کے لئے اور دوسری ترجیح ملک بھر کے لئے اس روشنی میں رپورٹس دی جائیں اور بیس لائن ڈیٹا بھی دیا جائے دستیاب اراضی پر سکیمیں بنائی جائیں جو عبوری حکم چھبیس اگست کو جاری کیا تھا وہ جاری رہے گا اور کچی آبادیوں کو نہیں گرایا جائے گا چیف جسٹس نے کہا کہ جو بھی اقدامات کئے جائیں وہ حقیقت پسندانہ آئین و قانون کے مطابق ہونے چاہیں جسٹس دوست نے کہا کہ آئین کی جو خلاف ورزی دہائیوں سے کی جارہی ہے حکومت کا بھی کفارہ ادا کریں چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں روز کہا جاتا ہے کہ آپ آئین و قانون سے تجاوز کررہے ہیں اراضی قوانین دیکھ کر فیصلہ کردیا جائے منٹو نے کہا کہ آئی الیون کے حوالے سے بھی فیصلہ کیا جائے ان لوگوں کو کہاں رکھا جائے گا چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ابھی اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکے کہ آئی الیون میں آئین و قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں اس سے ایک بات کا پتہ ضرور چلا ہے کہ ملک بھر سے کئی آبادیوں بارے پتہ چل گیا ہے