بھارت سے سوتی دھاگے کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کے معاملے پر ٹیکسٹائل ملز مالکان تقسیم،سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل بھی اختلافات کی وجہ سے سفارشات کو حتمی شکل نہ دے سکی

ایف بی آر کو ٹیکسٹائل کمپنیوں کے 13ارب روپے کے کسٹم ڈیوٹی ری بیٹ تین ماہ کے اندر ادا کرے گی، وزارت ٹیکسٹائل کو ٹیکسٹائل پالیسی2009-14کے 4 ارب روپے کے ڈی ایل، ٹی ایل کلیم 8ارب روپے کی سبسڈی اور سیلز ٹیکس ریفنڈ کلیم فوری طور پر ادا کرنے، ٹیکسٹائل کے شعبے کو بھارت و بنگلہ دیش کی طرح سستی بجلی فراہم کرنے، اسے زیروریٹنگ ڈیوٹی قرار دینے اور جلد از جلد وزیر ٹکیسٹائل مقرر کرنے کی ہدایات جاری

بدھ 9 ستمبر 2015 23:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 09 ستمبر۔2015ء) بھارت سے سوتی دھاگے کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کے معاملے پر ٹیکسٹائل ملز مالکان تقسیم ہو گئے، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل بھی اختلافات کی وجہ سے اپنی سفارشات کو حتمی شکل نہ دے سکی تاہم ایف بی آر کو ٹیکسٹائل کمپنیوں کے 13ارب روپے کے کسٹم ڈیوٹی ری بیٹ تین ماہ کے اندر ادا کرے گی، وزارت ٹیکسٹائل کو ٹیکسٹائل پالیسی 2009-14ء کے 4 ارب روپے کے ڈی ایل، ٹی ایل کلیم 8ارب روپے کی سبسڈی اور سیلز ٹیکس ریفنڈ کلیم فوری طور پر ادا کرنے، ٹیکسٹائل کے شعبے کو بھارت و بنگلہ دیش کی طرح سستی بجلی فراہم کرنے، اسے زیروریٹنگ ڈیوٹی قرار دینے اور جلد از جلد وزیر ٹکیسٹائل مقرر کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔

بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل انڈسٹری کا اجلاس چیئرمین محسن عزیز کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

جس میں مین کونسل آ ف آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشنز کے چیئرمین زبیر موتی والا نے ٹیکسٹائل اور ویلیو ایڈڈ صنعت کو درپیش مسائل پر ارکان کو بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی وزرت ٹریڈ لیبرلائزیشن کے ذریعے معیشت کی ترقی میں اپنا کر دار ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل کے شعبے کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 8فیصد جبکہ کل برآمدات میں 57فیصد ہے جبکہ عالمی بینک نے کہا ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات2020تک بڑھ کر 1180ارب روپے جبکہ 2025 میں 2110 ارب روپے سے بڑھ جائیں گی۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان ویلیو ایڈیشن کے ذرعیے کپاس کی 10لاکھ گانٹھوں پر ایک ارب 71 کروڑ ڈالر، بھارت ایک ارب 79کروڑ ڈالر جبکہ بنگلہ دیش 6ارب ڈالر کماتا ہے۔

2005 سے 2013 کے دوران ٹیکسٹائل کے شعبے نے پاکستان میں 3.6فیصد، بھارت میں 11.3فیصد جبکہ بنگلہ دیش میں 16.2فیصد کے حساب سے ترقی کی جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکسٹائل ملوں کو 15سینٹ فی یونٹ، بھارت 13سینٹ جبکہ بنگلہ دیش میں 9سینٹ فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ اس طرح ٹیکسٹائل کے شعبے کیلئے گیس کے نرخ پاکستان میں 6.77، بھارت میں 4.66ڈالر جبکہ بنگلہ دیش میں 2.46ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت 70فیصد پیداواری استعداد پر چل رہی ہے جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل صنعت 90فیصد پیداواری استعداد پر چل رہی ہے۔

زبیر موتی والا نے کہا کہ پاکستان میں کارپوریٹ ٹیکس 34فیصد، بھارت میں 25فیصد جبکہ بنگلہ دیش میں 27.5فیصد وصول کیا جاتا ہے جبکہ گزشتہ چند سال کے دوران خطے میں بھارتی روپے کی قدر 2.7 فیصد اور بنگلہ دیشی ٹکے کی قدر 0.7فیصد کم ہوئی، اس کے برعکس پاکستانی روپے کی قدر میں 5فیصد اضافہ ہوا، پاکستان میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد پر کوئی سبسڈی نہیں دی جاتی جبکہ بھارتی حکومت 11فیصد سبسڈی دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ بالا عوامل کے نتیجے میں پاکستان کی برآمدات 5فیصد تک گر گئیں جبکہ اگر یورپی یونین سے جی ایس پی پلس نہ ملا ہوتا تو برآمدات میں کمی 19فیصد ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ امر باعث افسوس ہے کہ 1986 میں پاکستان کی کپاس کی پیداوار 78لاکھ گانٹھ جبکہ بھارت میں کپاس کی پیداوار 69لاکھ گانٹھ تھی لیکن 2014 تک پاکستان کی کپاس کی پیداوار جہاں بڑھ کر ایک کروڑ 30لاکھ گانٹھ ہوئی تو وہاں بھارت کی کپاس کی پیداوار بڑھ کر 3کروڑ 78لاکھ گانٹھ ہو گئی۔

اسی طرح 1986 سے 2014 کے دوران پاکستان کی کپڑے کی برآمدات 50 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر ساڑھے چار ارب ڈالر تک پہنچیں جبکہ بھارت کی کپڑے کی برآمدات1.1ارب ڈالر سے بڑھ کر16.5ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں پاکستانی برآمدات کا حصہ 2.2فیصد سے کم ہو کر 1.8فیصد ہو گیا ہے۔ زبیر موتی والا نے کہا کہ ایف بی آر نے مختلف اعتراضات لگا کر ٹیکسٹائل کے شعبے کے کھربوں روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈ روک رکھے ہیں جبکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ایس آر او 1125(1)2011بحال کر کے ٹیکسٹائل کے شعبے کو زیر ٹیکس ریٹنگ قرار دیا جائے اور صرف مقامی سیل پر سیلز ٹیکس وصول کیا جائے۔

نیز جب تک وزیر ٹیکسٹائل نہیں آتا اس وقت ٹیکسٹائل کا مشیر لگایا جائے، گیس کی فراہمی کیلئے انڈسٹری کو چوتھی ترجیح سے نکال کر پہلی ترجیح پر لایا جائے جبکہ اگر ہمارے مطالبات پورے ہوئے تو ہم اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ تین سال میں ٹیکسٹائل برآمدات میں 50فیصد یعنی ساڑھے چار ارب ڈالر کا اضافہ کریں گے۔ اجلاس میں پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے سربراہ سہیل پاشا نے کہا کہ ایف بی آر کے پاس ہمارے 13ارب روپے کے کسٹم ڈیوٹی ری بیٹ کلیم پھنسے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ ٹیکسٹائل پالیسی 2009-14کے 4ارب روپے کے ڈی ایل، ٹی ایل کلیم 8ارب روپے کی مارک اپ سبسڈی پھنسی ہوئی ہے، آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے چیئر مین ایس ایم تنوی نے مطالبہ کیا کہ بھارت سے سوتی دھاگے درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی جائے کیونکہ بھارتی حکومت نے پاکستانی دھاگے پر 28فیصد ڈیوٹی لگا رکھی ہے جبکہ ہم صرف پانچ فیصد وصول کرتے ہیں، جس پ زبیر موتی والا نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سے زیادہ تر فائن کاؤنٹ(باریک دھاگہ) درآمد کیا جاتا ہے جو پاکستان میں نہیں بنتا، لہٰذا بھارتی دھاگے پر ڈیوٹی بڑھانے سے ویلیو ایڈڈ صنعت متاثر ہوئی۔

اس پر چیئرمین کمیٹی محسن عزیز نے کہا کہ اس معاملے پر ٹیکسٹائل ملز مالکان اپنے اختلافات دور کر کے متفقہ مطالبہ اپنائیں اس کے بعد حکومت کو سفارشات بھجوائیں گے۔