بد انتظامی کے سبب ایل این جی فرنس آئل سے مہنگی ہو گئی، خریداروں کی دلچسپی ختم

مہنگی گیس حکومت کی کاوشوں پر پانی بھیر دیگی، ایک درجن چارجز نے منصوبہ کوبے سود بنا ڈالا اکانومی واچ نقصانات کی ذمہ دار بیوروکریسی، ملبہ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل

اتوار 13 ستمبر 2015 15:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 13 ستمبر۔2015ء) پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ مختلف اداروں کی بد انتظامی اور آسمان سے باتیں کرتے چارجزکی وجہ سے ایل این جی جیسا سستا ایندھن پاکستان میں فرنس آئل سے مہنگا پڑ رہا ہے اور خریداروں کی دلچسپی کم ہونے سے یہ منصوبہ خطرات سے دوچار ہو گیا ہے۔تیل کی سپلائی چین مستحکم وقابل اعتماد جبکہ ایل این جی کی سپلائی غیر یقینی ہے جسکی وجہ سے حکومت کی کوششوں کے باوجود آئی پی پیز اسکی کی خریداری کیلئے تیار نہیں۔

ادھر اوگرا نے ابھی تک ایل این جی کی قیمت کا اعلامیہ جاری نہیں کیا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرٹیلائیزر کمپنیاں مکمل ادائیگیاں نہیں کر رہیں مگر انھیں سپلائی بھر بھی جاری ہے جو گیس کے گردشی قرضہ میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ ٹیکسوں کے علاوہ سوئی سدرن، سوئی نادرن ،پی ایس او، پورٹ اتھارٹی اور ٹرمینل آپریٹرزنے درامد شدہ ایل این جی پر ایک درجن سے زیادہ مختلف چارجز لگا رکھے ہیں جس سے اسکی قیمت میں پانچ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ ہو جاتا ہے ۔

بھاری بھرکم چارجز لگانے کی وجہ ایک با اثر لابی کی جانب سے ایل این جی منصوبہ کو ناکام کرنے کی خواہش بھی ہے۔اس منصوبہ کی کامیابی کیلئے ایل این جی کا فرنس آئل سے سستا ہونا ضروری ہے جسکے لئے خریداری میں شفافیت،چارجز میں پچاس فیصد کمی اور گیس کمپنیوں کی جانب سے 11 فیصد نقصانات کی وصولی کا روکنا ضروی ہے۔ چالیس ارب کی گیس چوری کے ذمہ دار گیس حکام ہیں نہ کہ عوام۔

امپورٹڈ گیس پر نقصانات کی وصول غلط ہے۔ ایس ایس جی سی نے اینگرو ٹرمینل سے معاہدہ کرتے وقت گیس پائپ لائن کی استعداد کو نظر انداز کر کے نا اہلی کا ثبوت دیا اور اب روزانہ ٹرمینل چارجز کی مد میں کروڑوں روپے جرمانہ ادا کیا جارہا ہے جسے گیس کے بلوں کے زریعے عوام کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایل این جی کی درامد سے قبل کسٹمر کو معاہدوں کے زریعے پابند کرنے کے بین الاقوامی اصول کو بھی پامال کیا گیا جسکی وجہ سے اب مارکیٹ میں خریداروں کی کمی نے اس منصوبے کو زبردست خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

متعلقہ عنوان :