سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس پر دئیے گئے فیصلوں پر نظرثانی کا حق ہونا چاہیے

پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر کی جانب سے سینیٹ میں پیش کی گئی قرارداد متفقہ طور پر منظور

پیر 14 ستمبر 2015 22:00

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 14 ستمبر۔2015ء) پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر کی جانب سے پیش کی گئی ایک قرارداد جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس پر دئیے ہوئے فیصلوں پر نظرثانی کا حق ہونا چاہیے، سینیٹ نے متفقہ طور پر منظور کرلی۔ جب یہ قرارداد سینیٹ کے چیئرمین رضاربانی نے ایوان کے سامنے پیش کی تو اس پر حکومتی بینچ کی جانب سے کوئی اعتراض نہیں آیا اور اس طرح یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔

اجلاس کے بعد سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس میں حکومت پر یہ ذمہ داری ڈال دی گئی ہے کہ وہ ازخود نوٹس کے طریقہ کار کو بہتر کرنے کے لئے مناسب قانون سازی کرے۔

(جاری ہے)

فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ازخود نوٹس سے عوام کو ریلیف ملا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس سے عدلیہ کو وسیع اختیار دے دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی فرد یا ادارے کے ہاتھ میں اس قدر اختیارات دے دئیے جائیں تو ان اختیارات کو قانون کے تحت ہونا چاہیے ورنہ اس کے بے تہاشہ استعمال کے مضمرات بھی ہوتے ہیں۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے یاددلایا کہ دو سال قبل سینیٹر کریم خواجہ نے سوال پوچھا تھا کہ ہائی کورٹ نے 2009 سے جتنے ازخود نوٹس لئے ہیں ا کی تفصیل بتائی جائے۔ اس کے جواب میں ہائی کورٹوں نے تفصیل دینے سے انکار کر دیا اور صرف سندھ ہائی کورٹ نے بتایا کہ 2009 سے اب تک کوئی ازخود نوٹس نہیں لیا گیا جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ اس قسم کے سوالوں سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل دو شراب کی بوتلوں پر ازخود نوٹس لیا گیا تھا۔ ایک اور کیس میں صدر، وزیراعظم، آئی ایس آئی کے ڈی جی، سابق سفیر حسین حقانی کو نوٹس جاری کئے گئے تھے جس کی بنیاد ایک ایسا خط تھا جو ایک پاکستانی نڑاد کینیڈا کے شہری نے لکھا تھا اور اس سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوگئے تھے۔ یہ کیس میموگیٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس کیس کے بعد قانونی حلقوں میں بہت سے سوالات اٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی جاسکتی۔ کچھ عرصہ قبل انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (آئی سی جے) نے پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد یہ رپورٹ دی تھی کہ اس اختیار کو عدالتیں مناسب طریقہ کار اختیار کرکے استعمال نہیں کر رہیں۔

آئی سی جے نے یہ سفارش کی تھی کہ سپریم کورٹ ازخود نوٹس کے طریقہ کار کا معیار مقرر کرے۔ کسی ایک شخص کے ہاتھ میں یہ اختیار دے دینا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی کو بھی سزا دینے کے لئے اختیار استعمال کر سکے درست نہیں۔ جب یہ اختیار کسی دوسرے ادارے کے اختیارات میں دخل اندازی کرتا ہوا نظر آئے تو سوالات خود اٹھتے ہیں۔ ازخود نوٹس کے اختیارات سے شہری کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اسے عدالت سے اس کے حقوق مل رہے ہیں اور ازخود نوٹس لینے کا اختیار کسی قانون کے تحت ہونا چاہیے۔ ازخودنوٹس کو قانون کے دائرے میں لانے کے لئے قانون سازی کرنی ہوگی۔