جیلوں کی حالت زار پر رپورٹس مسترد،سپریم کورٹ نے وفاقی‘ صوبائی سیکرٹریز داخلہ ،آئی جی جیل خانہ جات کو طلب کر لیا

منگل 15 ستمبر 2015 13:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 15 ستمبر۔2015ء) سپریم کورٹ نے ملک بھر میں جیلوں کی حالت زار پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تمام رپورٹس مسترد کر دی ہیں اور وفاقی‘ صوبائی سیکرٹریز داخلہ اور آئی جی جیل خانہ جات کو ذاتی طور پر طلب کر لیا ہے اور ان سے دو ہفتوں میں تمام تر تفصیلات اور اعداد و شمار طلب کئے ہیں جبکہ ہائی کورٹ کے مانیٹرنگ ججز کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بھی جیلوں کی موجودہ صورتحال کے بارے میں عدالت کو آگاہ کریں۔

عدالت نے مزید کہا ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں جیلوں کی حالت زار بہتر بنائیں۔ نئی جیلوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جیل میئوئل کی پابندی کرائی جائے۔ خواتین اور انڈر ٹرائل قیدیوں کو قانون کے مطابق سہولیات فراہم کی جائیں۔

(جاری ہے)

یہ حکم جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس دوسرت محمد خان پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی جبکہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا ہے کہ جیلوں کی مانیٹرنگ اور قیدیوں کے معاملات کی نگہبانی قانون نے سیشن ججز کو سونپی ہے وفاقی محتسب سمیت صوبائی محتسب کو اس حوالے سے کوئی اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ جیلوں کا دورہ کریں۔

جیلوں کے معاملات درست رکھنا وفاق اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ اگر پاکستانی جیلیں اتنی ہی اچھی اور سہولیات سے آراستہ ہوتیں تو بیورو کریٹس اور سیاستدان دوران قید خود جیل کی بجائے ہسپتال جانے کی کبھی کوشش نہ کرتے۔

جیلوں میں پیسوں کے لئے قیدیوں کی مار پیٹ کی جاتی ہے اور ان کو چکی میں بند کیا جاتا ہے انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیئے ہیں۔

خواتین قیدیوں کی جیلوں میں حالت زار سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران وفاق اور صوبوں نے اپنی اپنی رپورٹس پیش کیں۔ سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن سرور خان پیش ہوئے جسٹس دوست محمد نے کہا کہ ہمیں کوئی خاص پیشرفت نظر نہیں آ رہی ہے۔ سرور خان نے بتایا کہ وفاقی محتسب کی کارکردگی بارے پوچھا گیا تھا وفاقی محتسب اپنے احکامات پر اس لئے عمل نہیں کروا سکے ہیں کہ اس میں صوبائی محتسب نے خاص تعاون نہیں کیا ہے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین و قانون پر عمل درآمد کرائے۔ وفاقی محتسب کا کام پالیسی بنانا نہیں ہے آئین نے اپنا کام کرنا ہے۔جسٹس دوست نے کہا کہ ایک نظام پہلے ہی قائم ہے بدقسمتی سے پالیسی نہ ہونے اور جیلوں کی تعداد نہ بڑھنے کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ بات سادہ سی ہے جیل کی حالتوں کو درست کرنا وزارت داخلہ کا کام ہے ہم سیکرٹریز داخلہ کو طلب کریں گے۔

جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ کے پی کے ہوم سیکرٹری موجود ہیں رزاق اے مرزا نے بتایا کہ آج ہوم سیکریٹریز کو نہیں بلایا گیا تھا۔ کے پی کے ہوم سیکرٹری نے بتایا کہ 4 جیلوں کے سنٹرز ہیں ہر جیل میں خواتین کے لئے انتظام موجود ہے۔ تعداد کا صحیح طور پر نہیں پتہ ہے جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ بتائیں کتنی انڈر ٹرائل ہیں ہوم سیکرٹری نے بتایا کہ 6 ہزار خواتین ہیں جن کے خلاف ٹرائل چل رہا ہے۔

جسٹس دوست نے پوچھا کہ جیلوں میں گائنی کالوجسٹ رکھی گئی ہیں یا نہیں۔ ہوم سیکرٹری نے بتایا کہ 36 خواتین کو سزا دی جا چکی ہے جسٹس دوست نے کہا کہ وفاقی محتسب نے کچھ نہیں کیا ہے جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ یہ وفاقی محتسب کا کام نہیں ہے۔ کیا وہ جیلوں کا وزٹ کرے گا۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اگر کام نہیں کرنا تو اس کو بند کر دیں۔ قیدیوں کی حالت بالکل خراب ہیں سندھ میں دورے کئے تھے ہسپتال اور ڈاکٹر ہوتا ہے ہفتے میں دو مرتبہ مختلف بیماریوں کے خصوصی معالج بھی دورے کرتے ہیں اور بیماروں کا علاج کرتے ہیں گائنی کے علاوہ بھی کام ہوتے ہیں۔

جسٹس دوست نے کہا کہ جیل مینوئل اور رولز کے مطابق ہی کام کرنے کی ہدایت کی گئی تھی مانیٹرنگ نظام کو لاگو کرنے کا کہا تھا تاکہ پتہ چل سکے کہ جیل کے حالات ٹھیک طریقے سے چل رہے ہیں۔ پیسوں کے لئے لوگوں کو مارا جاتا ہے چکی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ مینوئل میں یہ سب موجود ہے عملی کام نہیں ہو رہا ہے۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ سیشن جج کو تمام تر اختیارات دیئے گئے ہیں وہ جائزہ لے سکتے ہیں تمام تر قیدی کا ریکارڈ کیا جاتا ہے سیشن جج جیلوں کا نگہبان ہوتا ہے وہ تمام تر امور کا خیال رکھتا ہے جن کو سزا دی جاتی ہے وہ الگ ہوتے ہیں۔

رزاق اے مرزا نے کہا کہ تمام تر کام ہو رہا ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ پنجاب نے کوئی کام نہیں کیا سیشن ججز کو متحرک کیا جانا چاہئے یہ ان ذمہ داری ہے وفاقی محتسب یا صوبائی محتسب کا کام نہیں ہے۔ جیل کی دنیا ہی مختلف ہے مرکزی اور ضلعی جیل میں کیا فرق ہوتا ہے۔ عدالت میں آئی جی جیل خانہ جات کے پی کے کی رپورٹ جو انہوں نے ذاتی طور پر پیش کی تو عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ کے علم کا یہ حال ہے تو اللہ ہی حافظ ہے۔

ضلعی اور مرکزی جیل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آپ آئی جی جیل ہیں کسی ایک قیدی بارے تفصیلات لکھی ہوں وہ لا دیں۔ آج تک کسی سپرٹنڈنٹ جیل نے یہ معاملہ نہیں دیکھا۔ ہوم سیکرٹری نے کہا کہ ہم سب ریکارڈ پیش کر دیں گے۔ جسٹس امیرہانی نے کہا کہ 1 ہزار قیدیوں کی گنجائش والی جیل میں 4 ہزار قیدی رکھے جا رہے ہیں۔ ہوم سیکرٹری نے بتایا کہ 2005ء میں لاء اینڈ جسٹس کمیشن کا اجلاس ہوا تھا اور اس میں جیلوں میں معاملات کا از سر نو جائزہ لیا گیا ہے اور کئی تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔

جیلیں ناکافی ہیں۔ عدالت نے کہا کہ اس بارے کیا اقدامات کئے گئے ہیں ہوم سیکرٹری نے کہا کہ عدالتیں ملزمان کا جلد سے جلد فیصلہ کریں اور جوڈیشل افسران اپنا کردار ادا کریں۔ مردان میں نئی جیل بن چکی ہے وہاں پر اڑھائی ہزار قیدیوں کی گنجائش ہو گی وہ مرکزی جیل ہو گی۔ مرکزی جیل پشاور کو بھی وسعت دی جا رہی ہے۔

اس میں 2085 قیدیوں کی گنجائش پیدا کی جا رہی ہے۔

آئی جی جیل خانہ جات کے پی کے نے بتایا کہ قیدی گنجائش سے زیادہ ہیں۔ 3 سال میں یہ جیل بن جائے گی۔ جسٹس دوست نے کہا کہ سارا کام عدالت نے کرنا ہے یا حکومت نے بھی کچھ کرنا ہے۔ دو تین جیلوں کے علاوہ باقی سب جیلیں انگریز نے بنائی تھیں حکومت محض لیپا توپی کر دیتی ہے۔ 2009ء میں جو فوجی آپریشن کیا گیا تھا اس میں کئی شدت پسند بھی رکھے گئے تھے۔ سنٹرل مانیٹرنگ سسٹم اور دیگر معاملات بارے بھی کہا گیا تھا۔

رزاق اے مرزا نے کہا کہ اس سال میں 5 جیلیں بنائی گئی ہیں اگلے سال 5 اور بنیں گی۔ لیہ بھکر اوکاڑہ ساہیوال وغیرہ میں جیلیں بنائی گئی ہیں ننکانہ سمیت دیگر 5 شہروں میں بھی جیلیں بنائی جا رہی ہیں۔ بلوچستان میں 11 جیلیں ہیں جسٹس دوست محمد نے کہا کہ پاکستان کی جیلوں میں 70 فیصد انڈر ٹرائل قیدی ہیں انگریز نے ان کو الگ سے آزادی دی تھی گھر سے کھانا بھی وہ منگوا سکتا ہے پیسے بھی جیب میں رکھ سکتا ہے۔

انڈر ٹرائل قیدیوں کے الگ سے حقوق ہین ان کو جیل کا لباس نہیں پہنایا جاتا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اپ کا یہ کہنا ہے کہ سب اچھا ہے۔ جسٹس دوست نے کہا کہ اگر جیل کے حالات درست ہوتے تو بیورو کریٹس اور سیاستدان جیل کی بجائے ہسپتال جانے پر مجبور نہ ہوتے۔ بلوچستان حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ نئی جیلوں کے لئے حکومت کو خط لکھا گیا ہے بجٹ رکھ دیا گیا ہے جس کی منظوری جلد دے دی جائے گی۔

اراضی تلاش کی جا رہی ہے۔ سندھ میں 24 جیلیں ہیں 3 خواتین جیلیں ہیں نئی جیلیں نہیں بن رہی ہیں۔ عدالت نے کہا کہ نئی جیلیں بن رہی ہیں آپ کو تفصیل کا پتہ ہی نہیں ہے۔ ایسی جگہ پر بھی جیل بنائی گئی ہے جہاں پانی کھڑا ہے۔ آپ کے پاس معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آپ سے زیادہ تو مجھے معلومات حاصل ہیں۔ نواب شاہ کی جیل میں قیدی نہیں ہیں ڈاکوؤں نے قبضہ جما رکھا ہے جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ اگلی تاریخ پر تمام ہوم سیکرٹریز اور آئی جی جیل خانہ جات پیش ہوں اور تفصیلات بھی عدالت میں پیش کریں۔

سیشن جج کا کام ہے کہ وہ قیدیوں کے معاملات کو ریگولیٹ کرے۔ آپ ان کو متحرک کریں۔ کیا ہائی کورٹ ججز دورے کرتے ہیں۔ ہائی کورٹ کا مانیٹرنگ جج ہوتا ہے۔ ان کو یہ کام کرنے چاہئیں ان کو بھی ہم مانیٹر کریں گے۔ عدالت نے آرڈر لکھوایا کہ مختلف ہائی کورٹس میں جیلوں کے حوالے سے مانیٹرنگ جج مقرر ہیں عمومی طور پر جیلوں میں قیدیوں کی حالت زار کمزور عملداری کی وجہ سے ہے۔

قیدی گنجائش سے زیادہ ہیں۔ موجودہ جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش نہیں ہے۔ ہمیں حقائق کا ادراک ہے ہائی کورٹس کی حد تک یہ معاملات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام ہوم سیکرٹریز اور آئی جیل جیل خانہ جات پیش ہوں اور جیلوں میں سہولیات کی عدم فراہمی اور دیگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اٹھائے گئے اقدامات بارے عدالت کو آگاہ کریں۔

جامع رپورٹس بھی سماعت سے قبل عدالت میں جمع کروائی جائیں۔ جیلوں میں میڈیکل سہولیات میں اضافہ کریں۔ قیدیوں کے علاج معالجے کا خیال رکھا جائے۔ دو ہفتوں میں رپورٹس جمع کروائی جائیں۔ اس کے بعد آفس کیس کو عدالت میں فکس کیا جائے ہم چاہتے ہیں کہ ہائی کورٹس کے مانیٹرنگ ججز بھی جیلوں کی صورتحال بارے عدالت کو پیش رفت سے آگاہ کریں اس آرڈر کی کاپی رجسٹرار ہائی کورٹس کو ارسال کی جائے۔ لاء افسران متعلقہ حکام کو عدالتی حکم نامے سے آگاہ کریں۔

متعلقہ عنوان :