حکومت پاکستان نے بھارتی وزیراعظم کے متنازعہ بیان کا سخت نوٹس لیا ہے‘ سندھ حکومت قبول کرے تو بنگلہ دیش میں کیمپوں میں مقیم بہاریوں کو وطن لانے کوتیار ہیں، جعلی ادویات کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات کیے جارہے ہیں ،ادویات کی چیکنگ کے لئے وفاق کی سطح پر جدید لیبارٹری بنائی جائے گی‘ جعلی اور غیر معیاری ادویات بنانے والوں کے لئے سزائیں سخت کی جائیں گی ، پاکستان میں بغیر رجسٹرڈ تجارتی نشان والی کئی ادویات موجود ہیں ایچ ای سی نے 2003ء سے اب تک اعلیٰ تعلیم کیلئے 19 ہزار سے زائد وظائف فراہم کیے

مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور وزرائے مملکت سائرہ افضل تارڑاور بلیغ الرحمان کے سینیٹ میں ارکان کے سوالوں کے جواب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے بنگلہ دیش کے بہاری کیمپوں میں مقیم افراد کی واپسی کا معاملہ مزید بحث کیلئے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا

منگل 15 ستمبر 2015 20:36

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 15 ستمبر۔2015ء) سینیٹ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے بھارتی وزیراعظم کے بنگلہ دیش میں بیان کا سخت نوٹس لیا ہے‘ سندھ حکومت قبول کرے تو بنگلہ دیش میں کیمپوں میں مقیم بہاریوں کو ملک میں لانے کے لئے تیار ہیں ۔ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے بنگلہ دیش کے بہاری کیمپوں میں مقیم افراد کی واپسی کا معاملہ مزید بحث اور تفصیلی حکومتی جواب کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔

سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے معاملہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنیکی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بہاری پاکستانی نہیں،بنگلہ دیشی ہیں،حکومت انہیں ہمارے سروں پر مسلط نہ کرے۔ سینٹ کو حکومت کی طرف سے مزید بتایا گیا کہ جعلی ادویات کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات کیے جارہے ہیں۔

(جاری ہے)

‘ ہیپا ٹائٹس کی ادویات پاکستان میں دنیا میں سب سے کم قیمت پر دستیاب ہیں‘ ادویات کی چیکنگ کے لئے وفاق کی سطح پر ایک جدید لیبارٹری بنائی جائے گی‘ جعلی اور غیر معیاری ادویات بنانے والوں کے لئے سزائیں سخت کی جائیں گی۔

پاکستان میں ایسی بہت سی ایسی ادویات موجود ہیں جن کا کوئی رجسٹرڈ تجارتی نشان نہیں ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے 2003ء سے اب تک اعلیٰ تعلیم کے لئے 19 ہزار سے زائد وظائف فراہم کیے۔منگل کو حکومت کی جانب سے مشیر خارجہ سرتاج عزیز،وزیر مملکت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز‘ ریگولیشنز سائرہ افضل تارڑ، وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت بلیغ الرحمان نے ارکان کے سوالوں کے جواب دئیے۔

سینٹ میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر نعمان وزیر‘ سینیٹر صالح شاہ اور دیگر ارکان کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ حکومت جعلی ادویات کی روک تھام کے لئے اقدامات کر رہی ہے۔ کراچی‘ لاہور اور چارسدہ میں جعلی ادویات بنانے وایل فیکٹریوں پر چھاپے مارے گئے ہیں۔ پنجاب میں جعلی ادویات بنانے والوں کے لئے سزائیں بڑھائی گئی ہیں۔

پورے ملک میں سزائیں سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ رواں سال دسمبر کے بعد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا کردار مزیدفعال ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ فیڈرل ڈرگ انسپکٹرز کی مزید بھرتیاں کی جارہی ہیں جس سے جعلی ادویات کی روک تھام میں مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ سینٹرل ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کراچی نے 2286 نمونوں میں سے 108 کو غیر معیاری اور 13 کو جعلی قرار دیا ہے۔

چھ کمپنیوں کا پیداواری سلسلہ معطل کردیا گیا ہے۔ 21 ادویات کی رجسٹریشن معطل کردی گئی اور آٹھ کی منسوخ کردی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی قانونی تقاضے پورے کرنے کے لئے ملزموں کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادویات کی رجسٹریشن وغیرہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی ذمہ داری ہے جبکہ میڈیکل سٹورز پر جب ادویات پہنچ جاتی ہیں تو پھر صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری شروع ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہیپا ٹائٹس سی کی ادویات پاکستان میں دنیا میں سب سے کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ امریکہ میں اس کی قیمت ایک ہزار ڈالر جبکہ پاکستان میں صرف ایک ہزار روپے ہے۔ اس لئے اس کی واپس دوسرے ممالک میں سمگلنگ روکنے کے لئے اس کی ڈسٹری بیوشن کو محدود کیا گیا ہے۔ ڈاکٹرز کو ادویات کی مارکیٹنگ سے روکنے کے لئے ضابطہ اخلاق بنایا جارہا ہے۔

پاکستان میں ہیپا ٹائٹس کے مریضوں کی تعداد پانچ سے آٹھ فیصد ہے۔ ادویات کی چیکنگ کے لئے وفاق میں ایک جدید لیب بنائی جائے گی۔سیٹر جاوید عباسی‘ فرحت اﷲ بابر‘ عثمان کاکڑ‘ سینیٹر کامل علی آغا کے سوالات کے جواب میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ایوان کو بتایا کہ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز موجود نہیں تاہم بنگلہ دیش کے بہت سے بہاری کیمپوں میں غیر بنگالی موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں زیادہ تر کیمپوں میں تقریباً4 لاکھ غیر بنگالی ہونے کی اطلاعات تھیں۔ 1974-1982ء کے دوران تقریباً ایک لاکھ 70 ہزار اور 1993ء میں 327 غیر بنگالیوں کی پاکستان میں واپسی عمل میں آئی ۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 1971ء کے بعد کیمپوں میں پیدا ہونے والے افراد کو ووٹ کا حق مل گیا ہے جنہوں نے 2014ء کے عام انتخابات میں بڑی تعداد میں ووٹ دیئے۔

انہوں نے کہاکہ بہاریوں کے معاملے پر پاکستان کو تشویش رہی ہے حکومت پاکستان وقتاً فوقتاً ان کو مالی امداد فراہم کرتی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے افراد کی بحالی کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 35 سال 40 لاکھ افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کی ہے اور انہیں ہر ممکن سہولیات فراہم کیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے بھارتی وزیراعظم کے بنگلہ دش میں بیان کا سخت نوٹس لیا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی حکومت ماضی میں بہاریوں کو کراچی میں آباد کرنے کے لئے تیار نہیں تھی اس لئے پنجاب میں ان کے لئے گھر بھی بنائے گئے جنہیں بعد میں وہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اب بھی سندھ حکومت آمادہ ہو تو ان بہاریوں کو پاکستان لانے کے لئے تیار ہیں۔ سینیٹر عائشہ رضا فاروق کے سوال کے جواب میں وزیر برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن سائرہ افضل تارڑ نے ایوان کو بتایا کہ ملک میں لیبارٹریوں کے نظام کو بہتر بنایا جارہا ہے اور ادویات کی رجسٹریشن کے لئے بھی ایک جامع طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔

پاکستان میں ادویات کا تجارتی استعمال نہ کرنے والی صنعت بھی تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں ستر فیصد حصہ تجارتی نشان استعمال نہ کرنے والے مقامی طور پر تیار کی جانے والی ادویات کا ہے۔ اس طرح پاکستان میں ادویات کی مارکیٹ میں تجارتی نشان استعمال نہ کرنے والوں کا راج ہے۔ ادویات تیار کرنے والی کمپنیاں اپنی مصنوعات کے معیار کو منفرد بنانے کے لئے بغیر تجارتی نشان والی ادویات برانڈ ناموں کے ساتھ بھی فروخت کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ معیاری ادویات کی فراہمی اور استعمال سے ہیپا ٹائٹس اور دیگر امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے اور حکومت اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔ اس سلسلے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی جائے گی۔ وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کی طرف سے تحریری جواب میں ایوان کو بتایا گیا کہ حکومت وژن 2025ء کے تحت ہر ضلع میں ایک نئی یونیورسٹی یا اس کے ذیلی کیمپس کے قیام کی خواہاں ہے۔

اس سلسلے میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ایک جامع منصوبہ تیار کیا ہے اور اس پر صوبائی حکومتوں کے ساتھ بھی مشاورت ہو رہی ہے۔ ا سینیٹر اعظم سواتی کے سوال کے جواب میں وزارت مواصلات کی طرف سے تحریری طور پر بتایا گیا ہے کہ اس منصوبے کے لئے تین پیکجز بنائے گئے ہیں جن کے لئے تین کمپنیوں نے بولیاں دیں۔ پیکج ایک اور پیکج دو کے کنٹریکٹرز کو کام شروع کرا دیا گیا ہے اور تعمیراتی سرگرمیاں جاری ہیں۔

پیکج تھری کی بولی کا عمل ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے اور اسے جلد متعلقہ کمپنی کے حوالے کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ پیکج ایک پر سات ارب 37 کروڑ 60لاکھ روپے۔ پیکج ٹو پر 6 ارب 77 کروڑ 50 لاکھ روپے اور پیکج تھری پر آٹھ ارب 18 کروڑ لاگت آئے گی۔ مجموعی طور پر تینوں پیکجز کی لمبائی 59 کلو میٹر سے زائد ہے۔ چوہدری تنویر خان‘ نعمان وزیر‘ سینیٹر جاوید عباسی ‘ کامل علی آغا اور دیگر ارکان کے سوالات کے جواب میں وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت بلیغ الرحمان نے ایوان کو بتایا کہ غیر سرکاری فنڈ سے فراہم کئے جانے والے وظائف وزارت امور خارجہ اور اقتصادی امور ڈویژن کے ذریعے غیر ملکی اداروں سے آتے ہیں۔

ان وظائف کے حوالے سے ایچ ای سی کا کردار نہایت محدود ہے۔ کیونکہ یہ وظائف فنڈز فراہم کرنے والے اداروں کی صوابدید پر ہوتے ہیں۔ ایچ ای سی اوورسیز سکالر شپس کے منصوبے کے تحت سرکاری فنڈ سے 6 ہزار 793 افراد نے اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹیاں کارپوریٹ ادارے ہیں اور ان کے ایکٹ یا آرڈیننس کی دفعات کے مطابق ان کا اپنا خودکار انتظامی طریقہ کار ہے۔

تاہم نجی یونیورسٹیوں کو این او سی جاری کرتے وقت ایچ ای سی اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ ان کا آپریشنل فریم ورک کم از کم وضع شدہ معیار کے مطابق ہو۔ نجی یونیورسٹیوں کے پاس ایک مخصوص وضع شدہ اختیار موجود ہے جس کے تحت وہ فیسیں اور دیگر واجبات وصول کرتی ہیں۔ سینیٹر اعظم خان اور دیگر ارکان کے سوال کے جواب میں وزارت بین الصوبائی رابطہ کی طرف سے ایوان کو بتایا گیا کہ ڈومیسٹک کرکٹ ٹورنامنٹس میں 19 سال سے کم عمر کھلاڑیوں کے بین الاضلائی کرکٹ ٹورنامنٹس‘ سینئرز کے لئے بین الاضلائی کرکٹ ٹورنامنٹ‘ انڈر 19 انٹر ریجن ٹورنامنٹ‘ قائد اعظم ٹرافی‘ پریزیڈنٹ کپ‘ ٹی 20 کرکٹ ٹورنامنٹ‘ پینٹنگولر کرکٹ ٹورنامنٹ اور انڈر 16 انٹر ریجنل کرکٹ ٹورنامنٹس شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ نیشنل جونیئر سلیکشن کمیٹی انڈر 16 اور انڈر 19 ٹیموں میں کارکردگی کی بنیاد پر ٹیموں کا انتخاب کرتی ہیں۔ نیشنل سینئر سلیکشن کمیٹی فرسٹ کلاس‘ ون ڈے اور ٹی 20 ٹورنامنٹس میں کارکردگی کی بنیاد پر پاکستان کی سینئر ٹیم اور پاکستان اے ٹیم کا انتخاب کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کے لئے تجربہ کار کوچ اور سٹاف فراہم کردیا گیا ہے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کے کھیل میں وقت کے ساتھ ساتھ ہم امید کرتے ہیں کہ بہتری آئے گی اور وہ قومی سطح کے ٹورنامنٹس میں بہتر کارکردگی دکھائیں گے تو ان کی پاکستان کی قومی ٹیموں میں بھی شمولیت پر غور کیا جائے گا