برطانوی خفیہ ادارہ پاکستان میں کمیونیکیشن ڈیٹا کی نگرانی کرتا رہا، اس قسم کے ڈیٹا تک رسائی کے لیے ’سی این ای‘ یا کمپیوٹر نیٹ ورک ایکسپلوائٹیشن کا استعمال کیا گیا، ٹیکنالوجی کمپنی ’سسکو‘ کے راوٴٹرز کو ہیک کر کے معلومات حاصل کی گئیں، یہ جاسوسی برطانوی حکومت کی اجازت سے کی گئی تھی،بظاہر اس کا مقصد دہشت گردوں کی شناخت اور نشاندہی میں مدد کرنا تھا’امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کا بی بی سی سے انٹرویو میں انکشاف

منگل 6 اکتوبر 2015 11:18

برطانوی خفیہ ادارہ پاکستان میں کمیونیکیشن ڈیٹا کی نگرانی کرتا رہا، ..

لندن /ماسکو (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 06 اکتوبر۔2015ء ) امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن نے انکشاف کیا ہے کہ برطانوی خفیہ ادارہ جی سی ایچ کیو پاکستان میں کمیونیکیشن ڈیٹا کی نگرانی کرتا رہا ہے، اس قسم کے ڈیٹا تک رسائی کے لیے ’سی این ای‘ یا کمپیوٹر نیٹ ورک ایکسپلوائٹیشن کا استعمال کیا گیا، ٹیکنالوجی کمپنی ’سسکو‘ کے راوٴٹرز کو ہیک کر کے معلومات حاصل کی گئیں، یہ جاسوسی برطانوی حکومت کی اجازت سے کی گئی تھی،بظاہر اس کا مقصد دہشت گردوں کی شناخت اور نشاندہی میں مدد کرنا تھا۔

ماسکو سے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ اس قسم کے ڈیٹا تک رسائی کے لیے ’سی این ای‘ یا کمپیوٹر نیٹ ورک ایکسپلوائٹیشن کا استعمال کیا گیا اور ٹیکنالوجی کمپنی ’سسکو‘ کے راوٴٹرز کو ہیک کر کے معلومات حاصل کی گئیں۔

(جاری ہے)

بی بی سی کے مطابق یہ جاسوسی برطانوی حکومت کی اجازت سے کی گئی تھی،بظاہر اس کا مقصد دہشت گردوں کی شناخت اور نشاندہی میں مدد کرنا تھا۔

ایڈورڈ سنوڈن کا کہنا تھا کہ ’سی این ای بنیادی طور پر ڈیجیٹل جاسوسی ہے جس میں آپ ان چیزوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو آپ کی ملکیت نہیں۔انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں جی سی ایچ کیو اور این ایس اے جیسے خفیہ ادارے نیٹ ورک سروس پروائیڈر کے علم میں لائے بغیر خفیہ طور پر ان نیٹ ورکس سے جڑے ایسے آلات تک مکمل رسائی پا لیتے ہیں جن میں ان کی دلچسپی ہو۔

سنوڈن نے یہ بھی بتایا کہ جدید سمارٹ فونز کو سکیورٹی ایجنسیوں کی مکمل رسائی سے محفوظ رکھنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے اور ایسے فون استعمال کرنے والے اپنی معلومات کے بچاوٴ کے لیے نہ ہونے کے برابر اقدامات ہی کر سکتے ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ برطانوی خفیہ ادارہ جی سی ایچ کیو اس بات پر قادر ہے کہ وہ فون کے مالک کے علم میں آئے بغیر فون ہیک کر سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ جی سی ایچ کیو ایک انکرپٹڈ تحریری پیغام بھیج کر کسی بھی سمارٹ فون کو تصاویر کھینچنے یا اس پر کی جانے والی بات چیت سننے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔اپنے انٹرویو میں سنوڈن نے یہ تو نہیں کہا کہ جی سی ایچ کیو یا امریکی ایجنسی این ایس اے بڑے پیمانے پر شہریوں کی نجی گفتگو سننے میں مصروف ہیں تاہم ان کا یہ ضرور کہنا تھا کہ دونوں ایجنسیوں نے اس ٹیکنالوجی میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے جو سمارٹ فونز کی ہیکنگ میں استعمال ہوتی ہے۔

سنوڈن کا کہنا تھا کہ جب خفیہ ادارے کسی صارف کے فون تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں تو پھر وہ جان سکتے ہیں کہ مذکورہ فرد ’کسے کال کرتا ہے۔ کیا پیغامات بھیجتا ہے اور انٹرنیٹ پر کہاں کہاں جاتا ہے۔ ’انھیں آپ کے رابطے میں رہنے والے افراد، آپ کی نقل و حرکت اور ان وائرلیس نیٹ ورکس کا بھی علم ہوتا ہے جن سے آپ رابطہ کرتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :