الطا ف حسین کی تقریر نشر کرنے اور تصویر پر عائد پابندی کے کیس میں سرکاری وکیل کاموقف صدمہ کاباعث ہے ،اس سے وفاقی حکومت کی دو عملی ، دوہرا معیار اور منافقت ظاہر ہوتی ہے،وزیراعظم ا س معاملے پرحکومتی پوزیشن کو واضح کریں، اگروفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ الطاف حسین یا ایم کیوایم کا کوئی بیان ریاست پاکستان کے برخلاف زمرے میں آتا ہے تو غداری کا مقدمہ بنا ئے ، ہم اس کا عدالت میں سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں

متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار کاپریس کانفرنس سے خطاب

منگل 3 نومبر 2015 23:13

الطا ف حسین کی تقریر نشر کرنے اور تصویر پر عائد پابندی کے کیس میں سرکاری ..

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔3 نومبر۔2015ء) متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر محمد فاروق ستار نے کہا ہے کہ لاہو ر ہائی کورٹ کی جانب سے قائد تحریک الطا ف حسین کی تقریر نشر کرنے اور تصویر پر عائد پابندی کے کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ ہمارے لئے انتہائی صدمہ کاباعث اور انتہائی ناقابل فہم ہے اور اس موقف سے وفاقی حکومت کی دو عملی ، دوہرا معیار اور منافقت ظاہر ہوتی ہے جس کی ہم سخت مذمت کرتے ہیں، انہوں نے کہاکہ ایک ہمیں وفاقی حکومت کے وزراء کی جانب سے مذاکرات میں یہ باور کرایاجارہا ہے کہ ہم الطاف حسین پر مقدمے کو غداری کے زمرے میں نہیں لے رہے ہیں اور نہ ہی ان کا میڈیا پر بلیک آؤٹ چاہتے ہیں لیکن دوسری جانب اب نجی پٹیشن کو جواز بنا کر سرکاری وکیل یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ یہ بیان ہائی ٹیرازم کے زمرے میں آتا ہے، اگر الطاف حسین کابیان ہائی ٹیر ازم کے زمرے میں آتا ہے تو وفاقی حکومت نجی پٹیشن کا سہارا کیوں لے رہی ہے ؟وفاقی حکومت کو کھل کر سامنے آنا چاہئے ، اگروفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ الطاف حسین کا کوئی بیان یا ایم کیوایم کا کوئی بیان ریاست پاکستان کے برخلاف زمرے میں آتا ہے تو سامنے آکرالطاف حسین اور ایم کیوایم پر غداری کا مقدمہ بنایاجائے ہم اس کا عدالت میں سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں، انہوں نے وزیراعظم سمیت وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ا س معاملے میں اپنی پوزیشن کو واضح کریں تاکہ ہم آئندہ کا اپنا لائحہ عمل واضح کرسکیں۔

(جاری ہے)

،وہ منگل کو ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر شاہد پاشا ، ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے اراکین محمد حسین ، اسلم آفریدی اورمحترمہ ریحانہ نسرین کے ہمراہ خورشید بیگم سیکریٹریٹ عزیز آبادمیں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ڈاکٹر فاروق ستار نے میڈیا ہاؤسز کے مالکان سے اپیل کی کہ 22ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے اپنے حکم امتناع میں پابندی میں کوئی توسیع نہیں کی چنانچہ میڈیا آئین کے آرٹیکل19کے مطابق قائد تحریک کابلیک آؤٹ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق نہیں ہے ، میڈیا ہاؤسز نے یہ خود پالیسی اختیار کرلی ہے کہ اب بھی پابندی عائد ہے ، الیکٹرانک پرنٹ میڈیا کے مالکان سے درخواست ہے کہ سپریم کورٹ کے 30اکتوبر کے آرڈر کے بعد جس میں سپریم کورٹ نے خود سوال کیا ہے کہ اب الطاف حسین اور ایم کیوایم کیسے فریق ہیں ؟جبکہ یہ حکم امتناع پندرہ دن کیلئے لاگو ہوا تھا اور 22ستمبر کو یہ ختم ہوگیا اس کا مطلب اب ایم کیوایم اور قائد تحریک الطاف حسین عدالتی حکم سے متاثر ہیں ۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے کہاکہ وزیراعظم نواز شریف ، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار ، وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید یہ وہ افراد ہیں جو ایم کیوایم کے ساتھ ایک طرف مذاکرات کررہے ہیں، ایم کیویام کو منا رہے ہیں اور یہ یقین دہانی کرارہے ہیں کہ ایم کیوایم کی شکایات کا ازالہ ہوگا اور ان شکایات میں ہماری ایک شکایت یہ بھی تھی کہ قائد تحریک الطاف حسین اور ایم کیوایم کے اظہار رائے کی آزادی کا حق چھین لیا گیا ہے ، قائد تحریک الطاف حسین کو آئین کے آرٹیکل 19کے تحت حاصل اپنے خیالات کااظہار کرنے سے روکا جارہا ہے اور اس پر پابندی لگا دی گئی ہے جو کہ آرٹیکل 19کی صریحاً خلاف ورزی ہے ہم نے اسی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی،ہمیں وفاقی حکومت کے وزراء نے مذاکرات میں یہ یقین دلایا تھا کہ سرکاری وکیل سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں یہ مؤقف اختیار کرے گا کہ حکومت قائد تحریک الطاف حسین ہوں یا کوئی سیاسی رہنما ہو پیمرا کے ذریعے سے اسے ریگولیٹ کرے گی اور حکومت کا الطاف حسین کے خطاب ، انٹرویو ، اظہار خیال اور اظہار رائے کی آزادی پر پابندی لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اوریہ حکومت کی پالیسی ہے جو ہمارے سامنے بیان کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ امید تھی کہ آج حکومت کا سرکاری وکیل یہی موقف اختیار کرے گا جس سے سپریم کو آسانی ہوتی اور اس نے گزشتہ تاریخ پر جو آرڈر دیا تھا اس آرڈر کو قائم رکھ کر باقی سماعت کیلئے معاملے کو لاہور ہائی کورٹ کے سپرد کرتی لیکن آج سرکاری وکیل نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ قائد تھریک الطاف حسین کے جس بیان کو ، جس تقریر کو اس کے جن حصوں کو نجی پٹیشنوں میں لائی کورٹ میں اٹھایا گیا ، سرکاری وکیل نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ ہائی ٹیرازم کے اور آئین کے آرٹیکل 6کے ذمرے میں یہ بات آتی ہے ، اگر حکومت کا وکیل یہ بات کررہا ہے، اگر حکومت کا وکیل وزیراعظم کی پالیسی ، وزیر خزانہ ، وزیر اطلاعات کی ایماء پر یہ بات کررہا ہے تو ہم نے آج زیراعظم ، وزیر خزانہ ، وزیرا طلاعات سے رابطہ کیا ہے ، ہم نے اٹارنی جنرل آف پاکستان سلمان اکرم سے بھی رابطہ کیا ہے اور ان چاروں حکومتی نمائندوں سے یہ سوال کیاہے کہ آج سرکاری وکیل نے سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران جو موقف اختیار کیا ہے کیا یہ حکومت کا موقف ہے اگر ایسا ہے تو وفاقی حکومت کر مردوں کی طرح منافقت ترک کرکے سامنے آنا چاہئے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں مذاکرات کی ٹیبل پر یہ کہاجارہا ہے کہ الطاف حسین کا کوئی بیان غداری کے زمرے میں نہیں آتا اور ہم الطاف حسین کے خطاب ، تقریر اور تصویر کے نشر کرنے پر کوئی پابندی نہیں لگاناچاہتے ہم البتہ پیمرا کے نوٹی فکیشن کے ذریعے اسے ریگولیٹ کریں گے جو اپریل یا مارچ مہینے میں آیا تھا ۔ جس میں کہا تھا کہ خطاب تاخیر سے نشر کیاجائے لیکن بلیک آؤٹ کرنا یہ حکومت کی پالیسی نہیں ہے جس کا پرویز رشید، اسحاق ڈار نے مذاکرات میں یقین دلایا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ اس معاملے پر وزیراعظم سے رابطہ نہیں ہوسکا لیکن پیغام چھوڑدیا ہے ، اسحق ڈار ملک سے باہر ہے ، پرویز رشید کو پیغام دیا ہے ان کے ڈائریکٹر اسٹاف نے رابطہ کیا اور ان سے کہا ہم نے کہاکہ ہماری بات کو سنیں اور پالیسی کو واضح کرکے منافقانہ عمل ترک کریں،اٹارنی جنرل سلمان اکرم نے فون پر مجھ سے رابطہ کیا اور انہوں نے قطعی اور قطعی اس معاملے پر اپنی لاتعلقی کااظہار کیا ہے اور کہاکہ میرے علم میں نہیں ہے کہ سپریم کورٹ میں کیا بات ہوئی ہے یہ بڑے عجوے کی بات ہے کہ ان کے علم میں نہیں ہے اور حکومت کی پالیسی کیا ہے؟ ۔

تو اس وقت تک ہم نے بھی اپنی پوزیشن اور پالیسی کو روکا ہوا ہے جب تک کہ حکومت پالیسی واضح نہیں کرتی ، آج ہمارے اور حکومت کے تعلقات میں ایک مرتبہ پھر دراڑ ڈال دی گئی ہے ، دودھ میں مینگنی ڈال دی گئی ہے یہ سازش ہے یا حکومت کی پالیسی ہے اسے واضح کرنا ہوگا ۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں دکھ اور صدمہ ہوا ہے کہ مذاکرات میں یہ کہاجاتا ہے کہ غداری کا کوئی مقدمہ نہیں بنا رہے ہیں اور آج سرکاری وکیل نے جو حرکت کی ہے وہ عجیب و غریب اور سرکاری پالیسی کے منافی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے جومعاہدہ سائن ہوا اس کے تحت ہمارے سینیٹرز سینٹ میں واپس چلے گئے اور قومی اسمبلی کے اراکین بھی 6نومبر کے اجلاس میں اسمبلی میں جارہے ہیں ۔ سپریم کورٹ میں سرکاری وکیل نے جو کچھ کیا ہے یہ دودھ میں مینگنی ڈالنے اور تعلقات کو خراب کرنے ،پاکستان کے سیاسی ، جمہوری عمل کو غیر مستحکم کرنے ور سیاسی مفاہمت کو خراب کرنے کا عمل ہے اوراس سے حکومت کی آئین ،سیاسی اورجمہوری عمل داری پر سوال پیدا ہوگیا ہے کہ موصوف سرکاری وکیل حکومت کی پالیسی پر چل رہے ہیں یا کہیں اور سے ڈکٹیشن لے رہے ہیں۔

انہوں نے رابطہ کمیٹی ، حق پرست ارکان سینیٹرز ، قومی وصوبائی اسمبلی کے ارکان کی جانب سے میڈیا ہاؤسز کے مالکان ، مدیران سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت تھی ،30اکتوبر 2015ء میں جو آرڈر دیا تھا اس میں واضح طور پر کہا کہ ایم کیوایم نے لاہور ہائی کورٹ کے جس آرڈر کو چیلنج کیا ہے جس کی پہلی سماعت 7ستمبر کو ہوئی ، دوسری 18، ستمبر کو پانچویں 16اکتوبر کو ہوئی اس کے تحت 7ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے یہ آرڈر کیا تھا کہ الطاف حسین کی تقریر اور تصویر کا بلیک آؤٹ کیا جائے لیکن سپریم کورٹ نے 30اکتوبر کو یہ بات کی کہ حکم امتناع کی معیاد ختم ہوگئی ہے اور لاہوئی کورٹ نے اپنے حکم امتناع میں کوئی توسیع نہیں کی لہٰذا آرٹیکل 19کے مطابق قائد تحریک کابلیک آؤٹ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق نہیں ہے ۔

انہوں نے درخواست کی کہ میڈیا ہاؤسز مسلسل قائدتحریک جناب الطاف حسین کی تقاریر ، تصاویر پر خود ساختہ عائد پابندی کا خاتمہ کرے ، اس حوالے سے میڈیا کے لوگوں کو اپنا کردار خود اداکرنا چاہے، حوصلہ اورہمت کامظاہرہ کرنا چاہئے کہ اب آئین و قانون کی خلاف ورزی ان کی جانب سے خود کی جارہی ہے ۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ میڈیا ہاؤسز کی جانب سے آج ہی سے ایم کیوایم کو مثبت جواب ملے گا اور قائد تحریک کی تقریر اور تصویر پر پابندی کا سلسلہ اب بند ہوگا ۔ انہوں نے وفاقی حکومت سے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے پندرہ دن ختم ہوگئے ہیں اور اب اس پابندی کو عملی طور پر بھی ختم ہوجانا چاہئیے۔