غیر ملکی مریض بھی رعشہ کے ڈی بی ایس آپریشن کے لئے جنرل ہسپتال آنا شروع ہوگئے ہیں،پروفیسر خالد محمود

پرنسپل پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ و جنرل ہسپتال کا پریس کانفرنس سے خطاب

پیر 9 نومبر 2015 19:14

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔9 نومبر۔2015ء )جنرل ہسپتال لاہور میں قائم پاکستان میں رعشہ اور پارکنسن کے امراض کے واحد آپریشن سنٹر میں پہلے سال کے دوران بیس مریضوں کے جدید طریقہ علاج ڈی بی ایس کے ذریعے کامیاب آپریشن کئے گئے ، اس طریقہ علاج کی کامیابی کے بعد اب غیر ملکی مریضوں نے بھی جنرل ہسپتال کے ڈی بی ایس آپریشن سنٹر ٰسے علاج کے لئے رجوع کرنا شروع کر دیا ہے ،ڈی بی ایس مہنگا طریقہ علاج ہے تین مریضوں کے اخراجات وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف نے برداشت کئے ،مخیر حضرات کی اس کار خیر میں شمولیت کے بغیر پاکستان میں رعشہ او رپارکنسن کے تقریباً 30 لاکھ مریض اس مرض سے چھٹکارہ نہیں حاصل کر سکتے جنرل ہسپتال کاڈی بی ایس آپریشن سنٹر نہ صرف پاکستان بلکہ تمام اسلامی ممالک میں اپنی نوعیت کی پہلی مکمل علاج گاہ ہے - ان خیالات کا اظہار پرنسپل پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹی و ممتاز نیوروسرجن پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے سوموار کو پریس کانفرنس سے خطاب میں کیا - اس موقع پر اسسٹنٹ پروفیسر آف نیورولوجی ڈاکٹر شاہد مختار بھی موجود تھے- پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ ایک سال قبل جب جنرل ہسپتال ڈی بی ایس آپریشن سنٹر کا آغاز ہوا تو وزیر اعلی پنجاب نے سنٹر کے لئے 15کروڑ روپے کے طبی آلات فراہم کئے - جنرل ہسپتال نیورو سرجری یونٹ ٹو کے علاوہ پورے پاکستان میں اس مرض کی کوئی علاج گاہ نہیں جس کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا افراد کو مشکلات کا سامنا ہے اس مسئلہ کے حل کے لئے پاکستان میں کسی بھی ہسپتال کے ڈاکٹر اگر ہم سے ٹریننگ لینا چاہیں تو ہم اس کے لئے تیار ہیں - انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ علاج بڑا مہنگا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے سنٹر میں وزیر اعلی کے علاوہ ایک مریض کا آپریشن انجمن بہبودی مریضاں نے بھی اپنے خرچ پر کرایا - تاہم بیرون ملک آنے والے اس آپریشن پر خرچ کی نسبت پاکستان میں پھر بھی کم خرچ پر یہ آپریشن ہو جاتا ہے - پاکستانی عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے بیرون ملک سے رعشہ اور پٹھوں کے کھچاؤ کی بیماری پارکنسن کا علاج کروا کے آنے والوں کی پاکستان میں پروگرامنگ کا کام بھی جنرل ہسپتال میں کیا جا رہا ہے - جس کے باعث اب انہیں ہر تین سے چار ماہ بعد بیرون ملک نہیں جانا پڑتا اور نہ ہی انہیں خطیر رقم خرچ کرنا پڑ رہی ہے - انہوں نے کہا کہ پارکنسنز کی بیماری دیگر ممالک میں 50 سال کی عمر کے شہریوں میں پائی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں 30 سال کے بعد ہی اس بیماری کے مریض سامنے آ رہے ہیں - موروثی نوجوانی میں شروع ہو جاتے ہیں -ڈے سٹونیا کی بیماری 20 سے 25 سال کی عمر میں ہوتی ہے - پارکنسز کی بیماری علامات میں شیکنگ چلنے ، پھرنے ، اٹھنے ، بیٹھنے میں مشکل ہوتی ہے اور یہ دماغ کے ڈس اورڈرہونے کی وجہ سے ہوتا ہے- دیگر ممالک میں اس بیماری میں مبتلا افراد کی سرجری کی شرح بہت زیادہ ہے ، تاہم دیگر ممالک کی نسبت ہمارے ملک میں اس بیماری میں مبتلا مریضوں کی سرجری کی شرح انتہائی کم ہے - انہوں نے کہا کہ شہریوں کی مالی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے جنرل ہسپتال لاہور کے آؤٹ ڈور میں موومنٹ ڈس آرڈر کلینک قائم کیا گیا ہے ، جبکہ اس بیماری میں مبتلا مریضوں کے لئے الگ سے ایک میڈیکل ٹیم تشکیل دی گئی ہے ، جو ہسپتال آنے والوں کا طبی معائنہ کر کے انہیں داخل کرتی ہے - پاکستان میں ڈی بی ایس کے ذریعے رعشہ ، پٹھوں سے کھچاؤ کی بیماری پارکنسز کا علاج شروع ہونے سے قبل جو لوگ بیرون ملک جاتے تھے ، انہیں، اب بیرون ملک نہیں جانا پڑتا - اس وقت پاکستان میں مڈل ایسٹ ، سعودیہ سے زیادہ پارکنسز کے آپریشن کئے جا رہے ہیں - ایک سوال کے جواب میں پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے بتایا کہ پاکستان میں نیورو سرجری کے شعبے میں بہت جدت آئی ہے - میرا چیلنج ہے کہ نیورو سرجری کا ایسا کوئی آپریشن ایسا نہیں ، جو جو یورپ ، امریکہ میں ہو رہا ہے مگر جنرل ہسپتال میں نہیں ہو رہا -