سپریم کورٹ نے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار رانا عامز نذیر کو گوجرانوالہ میں میئر کے انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دے دی

منگل 10 نومبر 2015 16:54

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔10 نومبر۔2015ء) سپریم کورٹ نے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار رانا عامز نذیر کو گوجرانوالہ میں میئر کے انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دے دی ۔ رانا عامر نذیر پر ممبر ٹیکنیکل لوکل کمیشن کے عہدے سے 29 ستمبر 2015 کو ریٹائر ہوئے تھے ۔ مخالف فریق کی درخواست پر ٹریبونل نے ان کو الیکشن لڑنے سے روک دیا تھا جس کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا ۔

منگل کے روز جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ان کی درخواست کی سماعت کی اس دوران ان کی جانب سے ملک قیوم جبکہ مخالف فریق کی جانب سے ڈاکٹر عبدالباسط پیش ہوئے۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کاغذات نامزدگی کی چھان بین بارے ریٹئرننگ افسران کے اختیارات محدود ہوتے ہیں انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دیتے ہیں ۔

(جاری ہے)

انتخابات کے بعد بھی تو ان کے خلاف عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے ۔ مختصر فیصلہ جاری کر رہے ہیں تفصیلی وجوہات بعد میں دیں گے ۔ قیوم ملک نے کہا کہ میں خود کمیشن کا حصہ ہوں اس کی سروس میں نہیں ہوں ۔ میں بیرسٹر ہوں اور پریکٹس بھی کرتا ہوں۔ میں حکومت کی نوکری میں نہیں ہوں ۔ لاء افسر کہہ سکتا ہوں ۔ کمیشن کے فنگشنز کے مطابق کام کر رہا ہوں ۔ یہ فل ٹائم یا پارٹ ٹائم جاب نہیں ہے ۔

حکومت لوکل گورنمنٹ رولز کے تحت مقرر کرتی ہے ۔ چیئرمین زکواة و عشر کمیٹی حکومتی ملازم نہیں ہوتا ۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ یہ ملازم نہیں ہیں پہلے یہ ملازم تھے ۔ یہ پہلے تاثر کا مقدمہ ہے جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ کا یہ پہلے تاثر کا کیس کیسے ہے ۔ قیوم ملک نے کہا کہ ریٹئرننگ افسر نے میرے کاغذات نامزدگی منظور کئے ہیں ۔ انہوں نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بھی حوالے دیئے ۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ چیئرمین زکواة و عشر کمیٹی ایک بڑا عہدہ ہے اگر وہ حکومتی ملازم نہیں ہیں تو یہ آپ کے حق میں جاتا ہے ۔ ڈاکٹر عبدالباسط نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ کسی کا ملازمت میں ہونا کیا کہلاتا ہے ؟ اس بارے 2007 کا فیصلہ دیکھنا پڑے گا ۔سیکشن (g)152 کے تحت بات کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ امیدوار حکومتی ملازمت میں ہیں ۔ سول سروس اور سول سرونٹ میں کوئی فرق نہیں ہے ۔

سوئی نادرن کے ملازم کو جیت کے باوجود اس کی کامیابی کا کالعدم قرار دیا گیا کہ ان کی کمپنی وفاقی حکومت کے تحت کام کر رہی ہے۔ لہذا وہ الیکشن نہیں لڑ سکتے ۔یہ کہتے ہیں کہ تنخواہ نہیں لیتے اور پارٹ ٹائم بھی نہیں ہے اس نااہلی سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کا کسی ایسے ادارے سے تعلق ہونا چاہئے تھا جو وفاق یا صوبوں میں سے کسی کے تحت قائم ادارے یا کمپنی میں کام نہ کر رہے ہوتے ۔

یہ جب خود کمیشن ہیں تو پھر یہ کیسے نااہلی سے باہر ہیں ۔ سرونگ لوگ بھی نااہلی سے باہر ہیں ۔پولیو ورکرز کی ٹیم بھی ایکروٹمنٹ ہوتی ہے یہ بھی وقتی ملازم ہوتے ہیں ۔ تنخواہ کو باقاعدہ ملازم کی ہوتی ہے جو صرف وقار اور احترام کے لئے کام کرتا ہے اسے صرف اعزازیہ کے طور پر کچھ رقم دی جاتی ہے ان کو فیس اور تنخواہ نہیں دی جاتی ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو پھر کوئی بھی لائسنس یافتہ وکیل کوئی شعبہ جائن نہیں کر سکتا ۔

کوئی بھی وکیل پارٹ ٹائم آفر لیگل سروس کے لئے لے سکتے ہیں ۔ اگر اس کے پیر امیٹرز کمیشن سے مختلف ہیں تو پھر ان کا لائسنس کینسل کر دینا چاہئے ۔ کیا یہ ابھی تک پریکٹس میں ہیں ۔ ڈاکٹر باسط نے کہا کہ جی اگر وہ اب بھی پریکٹس میں ہیں تو ان کا لائسنس کینسل کر دینا چاہئے ۔پنجاب پریکٹشنرز رولز اس کی اجازت نہیں دیتے چونکہ وہ وکالت کی جگہ کوئی اور پیشہ اختیار کر چکے ہیں تو پھر ان کا لائسنس منسوخ کیا جائے گا ۔

ان کو 2012 میں ممبر بنایا گیا اور تاحال کام کر رہے ہیں اگر یہ کمیٹی کے پارٹ ٹائم لیگل ۔ایڈوائزر ہوتے تو تب تو کوئی مضائقہ نہیں تھا ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ یہ کہتے ہیں یہ کمیشن کے ممبر ہیں مگر ملازم نہیں ہیں ۔ڈاکٹر باسط نے کہا کہ 29 ستمبر 2015 پر انہوں نے استعفٰے دیا ہے اور یہ الیکشن لڑنا چاہتے تھے ۔ ان کو دو سال کا عرصہ مکمل کرنا پڑے گا ۔

رانا عامر نذیر کا استعفیٰ بھی منظور کیا گیا ۔ ان کے کاغذات کی چھان بین ہوتی تو یہ ٹیکس کے معاملات میں نادہندہ ہیں ۔ 19 کروڑ روپے دینا ہیں ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ابھی یہ ایشو ہمارے پاس نہیں ہیں سکروٹنی کا معاملہ سمری نیچر کا ہے ۔آپ انتخابات کے بعد بھی اس معاملے کو اٹھا سکتے ہیں ۔سکروٹنی کے معاملات میں ریٹئرننگ افسران کے اختیار محدود ہوتے ہیں جب تک وہ نوٹیفائی نہیں ہو جاتے الیکشن کمیشن کو ان کے خلاف کارروائی کا اختیار ہے ۔

ڈاکٹر باسط نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جب کہہ رکھا ہے کہ یہ نااہل ہے ۔ عدالت نے کہا کہ ان کو الیکشن لرنے دیں اس سے جمہوریت مضبوط ہو گی ۔ ڈاکٹر باسط نے کہا کہ یہ جمہوریت کے خلاف ہے ۔ یہ الیکشن لڑے گا تو پھر قانون کہاں باقی رہ جائے گا ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ایک مختصر فیصلہ بھی آ چکا ہے جس میں یہی بات ڈسکس کی گئی ہے ہم درخواست سماعت کے لئے منظور کر لیں گے اور یہ درخواست پڑی رہے گی یوں کر لیتے ہیں کہ انتخابات ہونے دیں ۔

درخواست زیر التواء رہے انتخابات کے بعد اس کا جائزہ لے لیں گے ۔ ڈاکٹر باسط نے عابدہ حسین کے 1986 ء کے مقدمے کا حوالہ دیا ۔ عدالت نے کہا کہ یہ حوالہ یہاں نہیں آتا ۔ ڈاکٹر باسط نے کہا کہ 2007 کا عدالتی فیصلہ تاحال قابل عمل ہے ۔ نیا فیصلہ نہیں آیا اگر آپ نے درخواست سماعت کے لئے منظور کی تو قانونی طور پر درست نہیں ہو گا ۔ انہوں نے محمد ندیم 2013 کے عدالتی فیصلے کا بھی حوالہ دیا ۔ قانون کو ابہام سے نکالنے میں تو درخواست سماعت کے لئے منظور ہو سکتی ہے ۔ عدالت نے درخواست کو اپیل میں تبدیل کرتے ہوئے منظور کر لیا اور کہا ہے کہ اس کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی ۔

متعلقہ عنوان :