بلوچستان میں امن کے لیے وزیراعلیٰ اور عبدالقادر بلوچ نے جینوا میں سے ملاقات کی تھی ،براہمداغ بگٹی

فوج کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا،فی الحال پاکستان نہیں جا رہا بلوچ رپبلکن پارٹی کے سربراہ بلوچ رہنماء براہمداغ بگٹی کی برطانوی نشریاتی ادارے سے خصوصی بات چیت

بدھ 11 نومبر 2015 22:02

کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔11 نومبر۔2015ء )بلوچ رپبلکن پارٹی کے سربراہ اور جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے بلوچ رہنما براہمداغ بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں امن کے لیے مذاکرات پر اْن کی رائے جاننے کے لیے بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے جینوا میں اْن سے ملاقات کی تھی۔ برطانوی نشریاتی ادارے سے خصوصی بات چیت میں براہمداغ بگٹی نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے وہ بات کرنے کو تیار ہیں لیکن بلوچ رہنماوں سے مذاکرات کے لیے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے پاس کوئی اختیار نہیں۔

بلوچ چاہیں تو آزاد بلوچستان کے مطالبے سے دستبرداری پر تیارہیں‘یاد رہے کہ رواں سال اگست میں برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں براہمداغ بگٹی نے بلوچستان کے مسئلے پر مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بلوچ عوام چاہتے ہیں تو وہ آزاد بلوچستان کے مطالبے سے دستبرداری کے لیے تیار ہیں۔

(جاری ہے)

براہمداغ ماضی میں اس معاملے پر مذاکرات کی آپشن کو مسترد کرتے رہے ہیں اور ان کا موقف رہا ہے کہ ’بلوچستان کی آزادی تک جنگ رہے گی۔

‘سوئٹزرلینڈ میں موجود براہمداغ نے کہا کہ اْن کے دادا نواب اکبر بگٹی نے بھی مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں کیے تھے لیکن ’جن کے پاس حالات بہتر کرنے کا اختیار ہے وہ آ کر بات کریں۔‘انھوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور وفاقی وزیر سے ملاقات کے دوران کہا کہ ’اگر فوج اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اپنا ذہن بدل لیا ہے اور وہ بلوچستان میں آپریشن روک کر سیاسی طریقے سے مسئلے کا حل نکالنا چاہتے ہیں تو ہم بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

‘براہمداغ بگٹی نے بلوچستان میں قیامِ امن کی کوششوں پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ فوج کو بلوچوں سے مذاکرات میں دلچسپی ہے۔ مذاکرات کا اعلان کر کے وہ خود پھنس گئے ہیں۔‘جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے بلوچ رہنما براہمداغ بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں امن اْس وقت تک نہیں آسکتا ہے جب تک مذاکرات کے لیے ماحول ساز گار نہ ہو اور ماحول ساز گار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آپریشن روکا جائے۔

’ان حالات میں مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں جب بلوچوں کے خلاف آپریشن بھی جاری ہے، لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جا رہا ہے اور آئے دن لاپتہ افراد کی لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔‘پاکستان واپس جانے اور فوج اور اْن کے درمیان معاہدے کی خبروں کو براہمداغ نے مسترد کیا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت نے گذشتہ کچھ عرصے میں اْن سے ملاقات کی ہے لیکن فوج کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ وہ پاکستان نہیں جا رہے ہیں۔