میانماز کی آنگ سان سوچی جمہوریت کی بحالی کے لیے کئی عشروں کی جدوجہد اورقیدوبندکی طویل صعوبتوں کے بعد ایوان اقتدار میں پہنچنے والی چھٹی عالمی شخصیت بن گئیں

اس سے پہلے یہ اعزاز حاصل کرنے والوں میں بے نظیر بھٹو، مہاتما گاندھی،نیلسن منڈیلا اور دیگر شامل ہیں،رپورٹ

اتوار 15 نومبر 2015 15:53

ینگون(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔15 نومبر۔2015ء) میانماز کی آنگ سان سوچی جمہوریت کی بحالی کے لیے کئی عشروں کی جدوجہد اورقیدوبندکی طویل صعوبتوں کے بعد ایوان اقتدار میں پہنچنے والی چھٹی عالمی شخصیت بن گئی ہیں جبکہ اس سے پہلے یہ اعزاز حاصل کرنے والوں میں بے نظیر بھٹو، مہاتما گاندھی،نیلسن منڈیلا اور دیگر شامل ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق تاریخ میں ایسے چھ رہنماؤں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے جمہوری جدوجہد میں فتح حاصل کی اور سربراہِ حکومت بنے لیکن اس کامیابی کے باوجود ان کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔

سب سے پہلی مثال مہاتما گاندھی کی ہے جن کا اصل نام موہن داس کرم چند گاندھی تھا۔مہاتما گاندھی نے ہندوستان کو برطانوی تسلط سے ا?زاد کرنے کے لیے جدوجہد کی۔

(جاری ہے)

انہیں اس جرم کی پاداش میں کئی بار گرفتار کیا گیا۔ان کی اہلیہ کا انتقال بھی ان کی گرفتاری کے دوران ہوا۔آزادی کے لیے گاندھی کی جدوجہد تو رنگ لائی لیکن اس کے نتیجے میں ہندوستان آزادی کے ساتھ ساتھ دوملکوں یعنی پاکستان اور بھارت میں منقسم ہو گیا۔

گاندھی جی بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق کے محافظ سمجھے جاتے تھے جس کی وجہ سے انتہاپسند ہندو ان کے کٹر دشمن بن گئے تھے۔ آزادی کے کچھ ہی ماہ بعد انہیں قتل کر دیا گیا۔10لاکھ سے زیادہ افراد ان کی آخری رسومات میں شریک ہوئے ۔گاندھی کہا کرتے تھے کہ تم میرے ذہن کو کبھی قید نہیں کر پاؤ گے۔اسی طرح زمبابوے کے رابرٹ موگابے کا شمار بھی ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہیں قید وبند کی صعوبتوں کے بعد اقتدار نصیب ہوا۔

وہ ایک اْستاد تھے لیکن فوجی حکومت کے خلاف گوریلا وار کی وجہ مشہور ہوئے۔1964ء میں اس وقت کی رھوڈیشیائی حکومت نے انہیں گرفتار کر لیا اور 10سال تک وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے۔1980ء میں وہ ایک انقلابی ہیرو کے طور پر اقتدار میں آئے ۔ان کے مخالفین ان پر زمبابوے کو تباہ و برباد کرنے کاالزام لگاتے ہیں لیکن تیز رفتاری کے ساتھ ڈوبتی ہوئی معیشت کے باوجود موگابے کا کہنا ہے کہ زمبابوے کبھی دیوالیہ نہیں ہو سکتا۔

وہ اب بھی زمبابوے کے صدر ہیں۔ان کا کہناہے کہ صرف خدا ہی انہیں ہٹا سکتا ہے۔رابرٹ موگابے کے بعد فلپائن کی کوری اکینوہیں جو اس فہرست میں شامل ہیں۔اکینوفلپائن کے ایک دولت مند خاندان میں پیدا ہوئیں اور ان کی شادی کامیا ب سیاستدان بینکنو اکینوسے ہوئی۔ بینکنو اکینوکو کم عمر میئراور کم عمر سینیٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔1973ء میں جب صدر مارکوس نے ملک میں مارشل لاء نافذکیا تو انہیں گرفتار کرلیا تھا۔

10سالہ قید سے رہائی کے بعد جب وہ صدارتی الیکشن کی تیاریوں میں مصروف تھے تو انہیں قتل کر دیا گیا۔کوری اکینو نے اس موقع پر لاکھوں کا جلوس نکالا اور صدر مارکوس سے استعفے کا مطالبہ کیا۔کوری اکینو نے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ان کی اس پرامن تحریک کے نتیجے میں ہونے والے 1986ء کے عام انتخابات میں انہیں کامیابی ملی اور مارکوس ملک سے فرارہو گئے۔

فلپائن کی صدر کے طور پر انہیں پسندیدگی کی نظر سے دیکھے جانے کے بعد کئی مرتبہ فوج نے ان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔انہیں امن کے نوبیل انعام کے لیے بھی نامزد کیا جا چکا ہے ۔اگرچہ وہ یہ انعام حاصل نہیں کر سکیں لیکن ملک میں جمہوری جدوجہداور حقوقِ انسانی کے لیے ان کی خدمات کے صلے میں انہیں کئی ملکی و بین الاقوامی ایوارڈز مل چکے ہیں۔کوری اکینو کا کہنا ہے کہ عوام کی طاقت ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔

عوام کی طاقت پر یقین رکھنے والی مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا شمار بھی انہی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہیں جمہوری جدوجہد کی پاداش میں جیل کاٹنے کے بعد اقتدار نصیب ہوا۔جنرل ضیاء نے ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد 1979ء میں انہیں پھانسی دے دی۔بے نظیر بھٹو کو ان کے والد کی پھانسی کے بعدفوجی حکومت نے جیل میں ڈال دیااور اس کے بعد وہ پانچ سال تک نظربندی کے بعد خودساختہ جلاوطنی پر مجبور ہو گئیں۔

انہوں نے جنرل ضیاء کے خلاف سیاسی جدوجہد کا آغاز لندن سے کیا اور1986ء میں وطن واپسی پر لاکھوں عوام نے ایک محبوب لیڈر کے طور پر ان کا استقبال کیا۔ جنرل ضیاء کی طیارے کے حادثے میں ہلاکت کے بعدبے نظیر بھٹو 1988ء میں ملک کی وزیراعظم منتخب ہوئیں۔1993ء میں انہیں دوبارہ اس منصب پر منتخب کیا گیا لیکن دونوں مرتبہ ان کی حکومت کواس وقت کے صدور نے مبینہ کرپشن کے الزام میں برطرف کر دیا۔

اس کے بعد انہوں نے آٹھ سال جلاوطنی میں گزارے اور 2007ء میں اس وقت کے فوجی سربراہ ِ حکومت جنرل پرویز مشرف سے معاہدے کے بعد وطن واپس آئیں لیکن عام الیکشن سے ایک ماہ قبل راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ ء عام سے خطاب کے بعد انہیں خود کش حملے میں شہید کر دیا گیا۔بے نظیر بھٹوکہا کرتی تھیں کہ وہ موت سے نہیں ڈرتیں۔پولینڈکے مزدور رہنما لیخ ولیسا کا شمار بھی مذکورہ رہنماؤں میں ہوتا ہے۔

1980ء شپ یارڈ ہڑتالوں کے دوران انہوں نے وہاں کی کمیونسٹ سرکار کے خلاف پولینڈ سالیڈیرٹی ٹریڈیونین موومنٹ کاآغاز کیا۔ان کی اس سیاسی جدوجہد کو بالآخر سوویت بلاک کی تسخیر سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔غیرقانونی ہڑتالوں کی وجہ سے انہیں کئی مرتبہ گرفتارکیا گیا لیکن وہ اپنے آپ کو "مردِ تیقن" کا نام دیتے اور کہتے تھے کہ وہ صرف اﷲ سے ڈرتے ہیں اور کبھی کبھی اپنی بیوی سے بھی۔

1983ء میں انہیں امن کا نوبیل انعام دیا گیا اور 1990ء میں وہ غیرکمیونسٹ پولینڈ کے صدر منتخب ہوئے۔قیدوبندکی صعوبتوں کے بعد مسندِ اقتدارپر بیٹھنے والوں میں چمکتا دمکتا ایک نام نیلسن منڈیلا کا ہے جنہیں 1940ء میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔انہوں نے افریقا نیشنل کانگریس کی قیادت کرتے ہوئے جنوبی افریقا میں نسلی عصبیت کے خلاف مسلح جدوجہد میں حصہ لیا۔

1956ء میں انہیں نسل پرست حکومت نے غداری کے الزام میں گرفتار کرلیا۔پانچ سال تک چلنے والے مقدمے کے بعد انہیں رہاکر دیا گیالیکن 1964ء میں انہیں عمربھر کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا۔منڈیلا نے 27سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے ۔جن میں سے 18سال تک انہیں بدنامِ زمانہ روبن آئی لینڈ میں رکھا گیا۔ طویل قید کے باعث ان کی بینائی متاثر ہوئی اور انہیں دق کا عارضہ لاحق ہو گیا۔

1990ء میں انہیں رہائی نصیب ہوئی اور امن کا نوبیل انعام بھی ملا۔1994ء میں وہ جنوبی افریقا کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے۔انہوں نے 1999ء میں حکومت سے علیحدگی اختیارکرتے ہوئے سیاست سے بھی سبکدوشی کا اعلان کیا۔سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد 2001ء میں نیلسن منڈیلا کو غدودِ مثانہ کے کینسر کی بیماری تشخیص ہوئی اور2013ء میں پچانوے برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔انہیں موجودہ جنوبی افریقا کے "بابائے قوم" کی حیثیت سے جاناجاتا ہے۔