افغان طالبان نے 6ماہ میں دوسری مرتبہ شدید لڑائی کے بعد صوبہ بدخشان کے ضلع یمگان پر قبضہ کرلیا

قندھار پولیس نے ضلعی گورنر کے دفاتر پرحملے کی کوشش ناکام بنادی ،خودکش حملے میں سیکورٹی اہلکاراور 5 عسکریت پسند ہلاک

جمعرات 19 نومبر 2015 20:17

افغان طالبان نے 6ماہ میں دوسری مرتبہ شدید لڑائی کے بعد صوبہ بدخشان کے ..

کابل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔19 نومبر۔2015ء) افغان طالبان نے 6ماہ میں دوسری مرتبہ شدید لڑائی کے بعد صوبہ بدخشان کے ضلع یمگان پر قبضہ کرلیا۔جمعرات کو افغان میڈیا کے مطابق طالبان عسکریت پسندوں نے بھاری اور ہلکے ہتھیاروں کے ساتھ ضلع یمگان پر مختلف اطراف سے حملہ کیا اور شدید لڑائی کے بعد اس پر قبضہ کرلیا۔صوبائی نائب پولیس چیف سخی داد حیدری کا کہنا ہے کہ خراب موسم کے باعث ضلع یمگان میں سیکورٹی فورسز کے دستے مدد کونہ پہنچ سکے ۔

بدخشان پولیس کے ایک کمانڈر کاکہنا ہے کہ جھڑپوں کے دوران 4 افغان فوجی اور 40جنگجو مارے جاچکے ہیں۔ضلعی یمگان پر طالبان نے جون میں بھی قبضہ کرلیا تھا تاہم دو ہفتے بعد حکومتی فورسز نے طالبان کو پیچھے دھکیلتے ہوئے اس پر دوبارہ قبضہ کرلیا ۔

(جاری ہے)

وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی کا کہنا ہے کہ آپریشن کے دوران 6طالبان کمانڈروں سمیت 120 جنگجو مارے گئے ۔

ضلع یمگان واردوج اور دارائے خستک اضلاع کی سرحد پر واقع ہے جو طالبان کو مضبوط گڑھ ہے یہاں سے جنگجو صوبے کے دیگر علاقوں میں حملے کرتے ہیں۔اس سے قبل افغانستان کے جنوبی علاقے میں ایک خودکش کار بم حملے میں ایک سکیورٹی اہلکار ہلاک جب کہ پانچ شدت پسند مارے گئے۔صوبہ قندھار پولیس کے حکام کے مطابق ایک حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی ضلع ارغنداب میں حفاظتی چوکی سے ٹکرائی۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس کے بعد چار حملہ آوروں نے ضلعی گورنر کے دفاتر کی عمارت میں گھسنے کی کوشش کی جنہیں سکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا۔تاحال اس حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے لیکن طالبان کے مضبوط گڑھ رہنے والے اس علاقے میں شدت پسند ماضی میں ایسے ہلاکت خیز حملے کرتے رہے ہیں۔حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں کی طرف سے ایک بار پھر پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے جب کہ ملک کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کے علاوہ ان کے مختلف دھڑوں کے درمیان بھی لڑائیاں جاری ہیں۔

جولائی کے اواخر میں افغان طالبان کے امیر ملا عمر کی موت کی خبر منظرعام پر آنے کے بعد نئے سربراہ کی تقرری کا معاملہ بھی بظاہر طالبان کے اندرونی چپقلش کا سبب بنا ہے۔ملا اختر منصور کو تحریک کا نیا امیر مقرر کیا گیا تھا لیکن رواں ماہ کے اوائل میں ہی ایک دھڑے نے ملا رسول کو اپنا سربراہ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے خود کو ملا منصور کا مخالف قرار دیا تھا۔