سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کا الیکٹرانک میڈیا کے متفقہ ضابطہ اخلاق کی بجائے من پسند ضابطہ نافذکرنے پر بر ہمی کا اظہار ،15روز میں مکمل رپورٹ طلب کر لی

کمیٹی کا پی آئی ڈی کی اشتہارات پالیسی پر عدم اعتماد کا اظہار، تمام محکموں کو اشتہارات کی پالیسی پر عمل درآمد یقینی ، اے پی این ایس کو پالیسی کا پابند بنا نے اور معاملہ کابینہ اجلاس میں اٹھا نے کی ہدایت

جمعرات 26 نومبر 2015 21:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔26 نومبر۔2015ء ) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ کا کمیٹی اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے الیکٹرانک میڈیا کیلئے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی بجائے من پسند کو ڈ آف کنڈکٹ نافذ کر نے پر وزارت اطلاعات پر شدید بر ہمی کا اظہار کر تے ہوئے 15روز میں اس حوالے سے مکمل رپورٹ طلب کر لی۔

چیئر مین کمیٹی کامل علی آغا نے کہا کہ پی بی اے کا تیار کردہ کو ڈ آف کنڈکٹ یک طرفہ ہے ،اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ کمیٹی نے پی آئی ڈی کی اشتہارات کے متعلق پالیسی پر عدم اعتماد کا اظہار کر تے ہوئے تمام محکموں کو اشتہارات کی پالیسی پر عمل دراآمد کا پابند بنا نے اور معاملہ کابینہ میٹنگ میں اٹھا نے اور اے پی این ایس کو پالیسی کا پابند بنا نے کی ہدایت کر دی۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے صحافیوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے بل پر مزید مشاورات اور ممکن قانون سازی کیلئے سینیٹر مشاہد اﷲ خان کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل د یدی جوبل کا تفصیلی جائزہ لے کر صحافیوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کیلئے موثر قانو ن سازی کر کے ایک مہینے میں اپنی رپورٹ پیش کریں گی ۔ جمعرات کو کمیٹی کا اجلاس چیئر مین سینیٹر کامل علی آغا کی زیر صدارات پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا۔

اجلاس میں سینیٹر اشکوک کمار ، مشاہد اﷲ خان، نہال ہاشمی ، غوث محمد خان نیازی ، مس سسی پلیجو، مسز روبینہ خان اور وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات پرویز رشید کے علاوہ ، سیکرٹری اطلاعات نشریات ، ڈائریکٹر جنرل آئی پی ، ایگزیکٹو ممبر پیمرا و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ اجلاس میں پاکستان ٹیلی و یژن کو گزشتہ اجلاس میں دی گئی ہدایات پر عمل درآمد نہ کر نے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور آئندہ اجلا س میں ادارے سے ر ٹائر ہونے والے افراد کی فہرست اور کنٹریکٹ پر موجود ملازمین کی فہرست اور انکی تنخواہوں سے متعلق رپورٹ طلب کر لی ۔

اجلاس میں پی آئی ڈی کی اشتہارات کے متعلق پالیسی کے معاملات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے تفصیلی بحث کے بعد پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کے متعلق سفارشات دی تھیں اور یہ سفارشات حکومتی مفادات کو مد نظر رکھ کے مرتب کی گئیں تھیں ۔وزارتیں اپنی مان مانی کرتی ہیں جس کی وجہ سے معاملات میں کرپشن شامل ہو جاتی ہے ۔

ڈائریکٹر جنرل پی آئی ڈی نے قائمہ کمیٹی کو اشتہارات کے متعلق پالیسی بارے تفصیلی آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ 1960 میں اختیار کی گئی تھی اور 1985 میں اس کی باقاعدہ منظوری ہوئی تھی انہوں نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں تسلیم کیا کہ اس پالیسی پر من وعن عمل نہیں کیا جارہا بہت سے ادارے اشتہارات اخبارات کو بھیج دیتے ہیں ۔جس سے ریجنل پریس متاثر ہوتی ہے ان کا کوٹہ 25 فیصد ہے ابھی یہ معاملہ اے پی این ایس کے ساتھ بھی اٹھایا ہے کہ پی آئی ڈی کی منظوری کے بغیر اشتہارات جاری نہیں ہونے چاہیے ۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اشتہارات کے حوالے پالیسی پر عمل نہ کرنے سے نہ صرف چھوٹے اخبار بلکہ میڈیا کے ورکر ز بھی متاثر ہوتے ہیں مالکان اشتہارات نہ ملنے کا بہانہ بنا کر تنخواہیں روک لیتے ہیں ۔جس پر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ یہ معاملہ کابینہ کی میٹنگ میں اٹھایا جائے وزیر اعظم پاکستان اور کابینہ کے ارکان کے علم میں یہ بات لائی جائے اور اے پی این ایس کو پالیسی کا پابند بنایا جائے ۔

سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ خلاف ورزی کرنے والے اداروں کو نوٹس جاری کیے جائیں اور خلاف ورزی کرنے پر ان سے رپورٹ مانگی جائے اور پھر ان پر جرمانے عائد کیے جائیں ۔صحافیوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے بل 2011 جو سینیٹ بزنس ایڈوائزی کمیٹی نے 14 ستمبر2015 کو اس کمیٹی کے حوالے کیا تھا کے معاملات کو بھی زیر بحث لا یا گیا ۔ڈائریکٹر جنرل آئی پی نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ جب یہ معاملہ اٹھایا گیا تھا کہ تو اس کا جواب سینیٹ کو بھیج دیا گیا تھا ۔

جس کے مطابق اگر صحافیوں کے لئے اس بل کے تحت تحفظاتی اقدامات اٹھائے گئے تو ڈاکٹرز ، انجینئرز، این جی اوز، بیورو کریٹس اور دیگر سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی مطالبہ کریں گے ۔ اراکین کمیٹی نے برہمی کا اظہا رکرتے ہوئے کہا کہ صحافت ملک کا اہم ستون ہے اور صحافیوں نے دہشت گردی کی جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں اور نہایت خطرناک علاقوں سے بھی رپورٹنگ کی ہے او ردرجنوں صحافی اس حوالے سے شہید بھی ہو چکے ہیں ۔

صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کمیٹی وزارت کے ساتھ مل کربل میں ترمیم کرسکتی ہے ۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ موجو دہ حکومت نے ِاقتدار سنبھالا تو دہشت گردی کے حوالے سے فضا اور تھی ضرب عضب اور کراچی اپریشن شروع کرنے سے اب کافی تبدیل ہو چکا ہے اور اس بات کو دنیا نے بھی تسلیم کیا ہے۔

وزیراعظم پاکستان نے صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی تھی جس کے سربراہ چوہدری نثار علی خان تھے ۔اس کمیٹی کے ممبران میں/ میں اور مختلف حکومتی اداروں کے علاوہ صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے منتخب صدر افضل بٹ بھی شامل ہیں اور اس کمیٹی کی باقاعدگی سے پانچ میٹنگز ہو ئی ہیں جن میں صحافیوں اور صحافتی اداروں کے تحفظ کے لئے متعدد اقدامات اٹھائے گئے جن میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ میڈیا ہاؤسز کے اندر ایک پینک بٹن لگایا جائے گا جو کسی بھی ہنگامی صورت میں استعمال ہو گا۔

اس کے علاوہ ہر میڈیا ہاؤس سے دو منٹ کے فیصلے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار چوبیس گھنٹے موجود ہونگے جبکہ سروے کر کے میڈیا ہاؤسز کی اپنی سیکورٹی کے انتظامات کو بھی جائزہ لیا گیا اور میڈیا ہاؤسز کے نقشے بھی حاصل کیے گئے ہیں صوبائی سطح درالحکومتوں میں بھی یہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں یہ سارے اقدامات وہی ہیں جو اس بل کے تحت سیکورٹی کیلئے کیے جانے تھے ۔

چیئرمین کمیٹی نے سینیٹر مشاہد اﷲ خان کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جس کے ممبران میں سسی پلیجو اور سینیٹر روبینہ خالد ہونگی وہ وزارت اطلاعات نشریات سے مل کر اس بل کا تفصیلی جائزہ لے کر صحافیوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کیلئے موثر قانو ن سازی کر کے ایک رپورٹ پیش کریں گے ۔معلومات کی رسائی کے بل کے حوالے سے وفاقی وزیر نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ کیبنٹ کی میٹنگ میں اسے دو دفعہ شامل کیا گیا تھا مگر اس پر بحث نہیں ہوسکی ۔

عمل درآمد کے حوالے سے ترمیم مقصود ہو گی ۔باقی وزیراعظم پاکستان کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔بل قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش کر دیا جائے گااور جو وہ ترمیم کریں گے اس پر عمل درآمد کر وا لیا جائے گا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ موجودہ حکومت نے2013 میں فیصلہ کیا تھا کہ وزیراعظم پاکستان کے ساتھ جو بھی صحافی جائے وہ اپنے ادارے کے خرچے پر جائے گا اور ابھی ہم نے کوئی خرچ نہیں کیا ۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ میرے پاس ثبوت ہے ادارہ اس معاملے کا دوبارہ جائزہ لے کر اصل حقائق سے آگاہ کرے ۔کوڈ آف کنڈکٹ کے حوالے سے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ چیئرمین کمیٹی کامل علی آغا نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے وزارت اطلاعات و نشریات اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی باہمی مشاورت اور محنت سے موثر کوڈ آف کنڈیکٹ مرتب کیے تھے مگر سپریم کورٹ میں پی بی اے کی طرف سے پیش کردہ کوڈ آف کنڈیکٹ کو پیش کر کے منظوری حاصل کر لی گئی ۔

ڈائریکٹر جنرل آئی پی نے قائمہ کمیٹی کو تبایا کہ وزیراعظم پاکستا ن نے مئی 2014 کو معاون خصوصی عرفان صدیقی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے کوڈ آف کنڈکٹ کا جائزہ لے کر ایک سمری وزیراعظم کو بھیجی اسی دوران سپریم کورٹ نے اس حوالے پوچھا اور کہا کہ سمری کب منظور ہو کر آئے گی جو کوڈ آف کنڈکٹ ہیں ان کا نوٹیفیکشن جا ری کر دیا جائے ۔

جس پرچیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ادارے کا فرض تھا کہ سپریم کورٹ کو قائمہ کمیٹی کی طرف سے کوڈ آف کنڈکٹ کے حوالے سے کی گئی کاوشوں بارے آگاہ کرتے اور اس کمیٹی نے پہلے بھی ہدایت کی تھی کہ قائمہ کمیٹی کے منظور کردہ بل کوڈ آف کنڈکٹ کو سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے اور اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے اور 15 دن میں اس حوالے سے رپورٹ قائمہ کمیٹی پیش کی جائے ۔

متعلقہ عنوان :