ڈاکٹر عاصم حسین کیس میں شامل دیگر ناموں کیخلاف کاروائی کرنیوالے کرسکتے ہیں، وزیر اطلاعات نثار کھوڑو

4 اور 14 دن کے ریمانڈ کی بحث مناسب نہیں ، کیا ڈاکٹر عاصم کو 3 ماہ حراست میں رکھا کافی نہیں تھا؟ اس لئے طویل ریمانڈ مانگنے کی ضرورت نہیں تھی، وزیر اطلاعات سندھ

جمعہ 27 نومبر 2015 22:07

لاڑکانہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔27 نومبر۔2015ء) وزیر اطلاعات سندھ نثار کھوڑو نے کہا ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کیس میں شامل کئے گئے دیگر ناموں کے خلاف کاروائی کرنے والے کرسکتے ہیں، انہوں نے عاصم حسین کو بھی تین ماہ زیر حراست رکھا۔ 4 اور 14 دن کے ریمانڈ کی بحث مناسب نہیں تھی۔ کیا ڈاکٹر عاصم کو 3 ماہ حراست میں رکھا کافی نہیں تھا؟ اس لئے طویل ریمانڈ مانگنے کی ضرورت نہیں تھی۔

گورنمنٹ گرلس اسکول لاہوری محلہ میں افتتاح کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ہم بائیو میٹرک سسٹم اساتذہ کی بہتری کے لیے متعارف کروایا ہے، لاڑکانہ میں بائیو میٹرک سسٹم میں کچھ لوگ کمپیوٹر وغیرہ لے گئے تھے جنہیں یہ سسٹم بہتر نہیں لگ رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اصل میں یہ سسٹم اساتذہ کی فلاح و بہتری کے لیے ہے، محکمہ تعلیم میں ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ کیڈر کے ڈھائی لاکھ ملازمین ہے جن میں سے ایک لاکھ 43 ہزار ملازمین اپنا بائیو میٹرک کرواکر رجسٹر کیا ہے جبکہ دیگر کو بھی چاہیے کہ وہ بائیو میٹرک سسٹم کروائیں تاکہ تنخواہوں کا مسئلہ حل ہوسکے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم اساتذہ کی بہتری کے لیے کام کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے، ہڑتال پر جانے والی اساتذہ ایسوسی ایشن نے ہمیں تحریری طور پر نہیں دیئے ہیں اگر کسی کی کوئی جعلی آئی ڈی ہے تو میں کیوں کہوں کہ اساتذہ غلط ہیں جس کے لیے ہی اور ان کی بہتری کے لیے ہی بائیو میٹرک سسٹم متعارف کروایا گیا ہے تاکہ اساتذہ پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے کیونکہ اساتذہ قابل عزت ہیں اور ان کی عزت کرنا ہم سب پر فرض ہے۔

انہوں نے کہا کہ بائیو میٹرک ہونے سے اساتذہ کی حاضری کو مزید بہتر بنایا جائے گا تاکہ تعلیم دینے میں کوئی کثر نہ چھوڑیں۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ نے الیکشن ڈیوٹی کا بائیکاٹ کیا تھا جو بلکل غطل تھا لیکن اس کے باوجود الیکشن ہوئی ہمیں چاہیے کہ گورنمنٹ کے احکامات مانیں اور ماننے چاہیں کیونکہ وہ سرکاری ملازمین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سال 2012-13 میں مزید بھرتیاں ہوئے تھے اور اب ان کی تنخواہوں کا مسئلہ ہے کیونکہ ان کے لیے ایس این ای نہیں ہوئے ہے جس کے انتظار میں ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ملازمتوں پر عائد پابندی ختم ہونے کے بعد محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کے لیے اشتہارات دیئے جائیں گے اور میرٹ کی بنیاد پر انہیں بھرتی کیا جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چاول کا دام حکومت کی جانب سے مقرر نہیں ہوتے ہیں یہ فری مارکیٹ میں چلتا ہے کسی زمانے میں رائیس ایکسپورٹ کارپوریشن آف پاکستان اور پاسکو ہوتی تھی، پاسکو والے چاول سرکاری قیمت پر خریدا کرتے تھے جو رائیس ایکسپورٹ کارپوریشن آف پاکستان انہیں ایکسپورٹ کرتے تھے لیکن آبادگاروں اور رائیس مل مالکان نے مطالبہ کیا کہ ہمیں فری ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی جائے جس کے بعد ہوسکتا ہے کہ آبادگار غیر محفوظ ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم نے کالی یوریا پر 500 روپے کم کیے ہوں جس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس کے لیے وزیراعظم کی جانب سے دیئے گئے زرعی پیکج پر ہم تنقید کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں سیلاب بھی آئی اور پانچوں دریاؤں کا پانی بھی سندھ سے گذرا اور تمام نقصان بھی سندھ میں ہوا لیکن وفاقی حکومت کو چاہیے کہ سندھ کے لیے زرعی پیکج دے کر خاص فصلوں کی قیمت مقرر کرکے آبادگاروں کو سسبڈی دے تاکہ گذشتہ سال گنے کی قیمت حکومت کی جانب سے 160 روپے مقرر کیا گیا تو 12 روپے سندھ حکومت نے آبادگاروں کو دیئے تاکہ آبادگاروں کو سسبڈی مل سکے۔

اس طریقے سے آبادگاروں کے لیے وفاقی اور سندھ حکومت سوچ سکتے ہیں اور ہم پر فرض ہے کہ آبادگاروں کو مناسب قیمت ملنی چاہیے تاکہ وہ اپنی زندگی بہتر طریقے سے بسر کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ دکھی انسانیت کی خدمت کرنا عین عبادت سے ہم نہیں ہمیں چاہیے کہ انسان ذات کی مدد کریں۔ اس میڈیکل کیمپ میں بچوں، آنکھوں، شگر، دماغ اور دیگر بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر موجود ہیں مریضوں کو چاہیے کہ اس طبی کیمپ سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کریں۔اس موقع پر پیپلز پارٹی رہنما خیرمحمد شیخ، اسلم شیخ، ڈاکٹر سکینہ گاد، غلام عباس کیہر، مشتاق انصاری سمیت پیپلز پارٹی کے دیگر ورکرز بھی موجود تھے۔