گوادر کاشغر روٹ کے مسئلے پر اپنا موقف میڈیا کے سامنے پیش کیا ہے،سردار اختر مینگل

نواز شریف کے دوسرے دور میں گوادر پورٹ پر کام شروع کرنے کی ہم نے مخالفت کی تھی ،سربراہ بی این پی

جمعہ 27 نومبر 2015 22:17

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔27 نومبر۔2015ء )بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ گوادر کاشغر روٹ کے مسئلے پر اپنا موقف میڈیا کے سامنے پیش کرتے آئے ہیں ۔میاں نواز شریف کے دوسرے دور میں گوادر پورٹ پر کام شروع کرنے کی بھی ہم نے مخالفت کی تھی ہم ترقی کے مخالف نہیں چاہتے ہیں ہمارے لوگوں کو روز گار ملے۔

میں نے 1998ء میں بھی گوادر منصوبے کی مخالف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک ساحل و وسائل کا اختیار صوبے کو نہیں دیا جاتا تب تک ہم کسی صورت بھی راہداری سمیت کسی بھی عالمی منصوبے یا معاہدے کو تسلیم نہیں کریں گے یہ بات انہوں نے بی ایس او کے سابق چیئرمین جاوید بلوچ کی ساتھیوں سمیت بی این پی میں شامل ہونے کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی،انہوں نینے بی ایس او کے سابق چیئرمین جاوید بلوچ اور اْن کے ساتھیوں کوبی این پی میں شامل ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ بی این پی اور بی ایس او کا جو تعلق رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں آج پارٹی قیادت جن لوگوں نے سنبھالی ہے یا جو ماضی میں عہدیدار رہے اور جو دوست ہم سے بچھڑ کر اب اس دنیا میں نہیں اْن سب کا تعلق بی ایس او سے رہا ہے بی ایس او کی جانب سے بی این پی کو قیادت کی فراہمی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

(جاری ہے)

الیکٹرانک میڈیا کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج ہماری پارٹی کا یہ موقف تھا کہ الیکٹرانک میڈیا کا بائیکاٹ کیا جائے اس سے پہلے بھی کافی عرصے قبل مختلف مراحل میں بی این پی اور بی ایس او نے الیکٹرانک میڈیا کا بائیکاٹ کیا لیکن مقامی صحافیوں کے کہنے اور اْن کی جانب سے تسلی کرانے پر صحافیوں کی مجبوریوں کو مد نظررکھتے ہوئے ہم نے اپنا بائیکاٹ ختم کیا اور آج بھی چونکہ الیکٹرانک میڈیا بلوچستان کے مسائل کو نظر انداز کر رہا ہے اور بلوچستان کی وہ جماعتیں جن کی حقیقی نمائندگی اس سرزمین سے ہے اْن کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اس پر ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ مزید الیکٹرانک میڈیا کو تکلیف نہیں دی جائے لیکن آج پھر صحافیوں کی یقین دہانی پر اس امید کے ساتھ کہ اپنا فیصلہ واپس لے رہے ہیں کہ آئندہ نظر انداز نہیں کیا جائیگاانہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں بلوچستان اسمبلی میں ہنگول نیشنل پارک کی نو ہزار ایکڑ اراضی اسپارکو کو الاٹ کی گئی ہے یہ صوبے کا سب سے بڑا اور قدیم نیشنل پارک ہے جہاں بڑی تعداد میں جنگلی حیات موجود ہے مگر بلوچستان اسمبلی نے وائلڈ لائف رولز اور ماحولیات سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صرف پانچ سیکنڈ میں بل منظور کر لیا جس کے خلاف احتجاج کریں گے اور عدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکٹھائیں گے۔

ابنہوں نے کہا کہ بلوچستان میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ سنگین اور دیرینہ ہے جس کے لئے مشرف کے بعد آنے والی تمام حکومتوں نے اس مسئلے کو اٹھایا اْس وقت کی اپوزیشن جماعتوں نے ان زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی مگر اقتدار میں ا? کر انہوں نے انہی زخموں پر نمک پاشی شروع کر دی سابق دور میں سپریم کورٹ نے کسی حد تک لا پتہ افراد کے معاملے کی سماعت ہوئی جس سے کچھ امید پیدا ہوئی تھی مگر جسٹس افتخار محمد چوہدری کے جانے کے بعد وہ مسئلہ ٹھپ ہو کر رہ گیا اور اب چند روز قبل سپریم کورٹ سے اْن تمام پٹیشنوں کو خارج کر دیا گیا دوسری جانب گزشتہ دنوں کوئٹہ میں ایک تقریب میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے لا پتہ افراد کے مسئلے کو اہم قرار دیا تھا سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ کیا پالیسی ہے کہ ایک طرف پٹیشنز کو خارج کر دیا جاتا ہے دوسری طرف مسئلے کو اہم قرار دیا جاتا ہے۔

مری معاہدے کے حوالے سے انہو ں نے کہا کہ فیڈریشن کی جماعتوں کی صوبائی قیادت کے پاس تو کوئٹہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کا بھی اختیار نہیں 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو جو اختیارات ملنا تھے وہ بھی نہیں ملے بلکہ اب تو فیڈریشن کی جماعتوں کے معاملات بھی اْن کی مرکزی قیادت نے اپنے ہاتھو ں میں لے لئے ہیں آج تک تو ہم شملہ معاہدے کے بارے میں سنتے آئے ہیں اب اْس کی جگہ مری معاہدے نے لے لی ہے 1971ء میں ملک کا نصف حصہ گنوانے کے بعد وہی تجربات دہرانے والا نجانے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور بلوچستان کو اْس طرف نہ دھکیلا جائے جس طرف بلوچستان کے عوام نہیں جانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک جانب حکومت ناراض بلوچوں سے مذاکرات کی بات کرتی ہے دوسری طرف انہی کو دہشت گردبھی قرار دیا جاتا ہے بلوچستان اسمبلی میں قرار دا د کے ذریعے اْنہیں دہشت گرد قرار دیا گیا حکومت کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ اْنہیں ناراض بلوچ سمجھتی ہے یا اْس کی نظر میں یہ دہشت گرد ہیں دراصل حکومت میں شامل لوگوں کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر ناراض لوگ واپس آ گئے تو اْن کی چھوٹی سی دکان بند ہو جائیگی۔