احتساب کے بغیر معاشرے سرکش ہو جاتے ہیں،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

اکابرین کی مارشل لاء اور آمریت مخالفت کو ملک دشمنی سے تعبیر کیا گیا،سوئی اور سیندک کی مثالیں صوبے کیلئے انتہائی بھیانک ہیں، جمہوریت کے تسلسل سے ہی ملک استحکام اور صوبہ خوشحالی کی طرف گامزن ہوگا،وزیر اعلیٰ بلوچستان

جمعہ 27 نومبر 2015 22:17

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔27 نومبر۔2015ء ) وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ احتساب کے بغیر معاشرے سرکش ہو جاتے ہیں۔ ہمارے اکابرین کی مارشل لاء اور آمریت مخالفت کو ملک دشمنی سے تعبیر کیا گیا۔ سوئی اور سیندک کی مثالیں صوبے کے لیے انتہائی بھیانک ہیں، جمہوریت کے تسلسل سے ہی ملک استحکام اور بلوچستان خوشحالی کی طرف گامزن ہوگا، ماضی کی نسبت اب حقیقت پسندی غالب آرہی ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل سیکورٹی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا، وزیراعلیٰ نے اپنے خطاب اور شرکاء کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان ملک کا نصف ہے اور اس کی پسماندگی سے مراد پاکستان کی پسماندگی ہے انہوں نے کہا کہ ماضی میں بلوچستان کو کرپشن کے حوالے سے بلیک ہول کہا جاتا تھا، جبکہ موجودہ مخلوط صوبائی حکومت نے گڈ گورننس کے قیام اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات اٹھائے ہیں، ملک میں جمہوریت سے ادارے مضبوط ہو رہے ہیں اور اگر عوام کے ووٹ کی حیثیت اور تقدس برقرار رہا تو اس میں استحکام آئے گا اور بلوچستان بھی خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا، ہمارے اکابرین ملک میں جمہوریت، انسانی حقوق اور سماجی نا انصافیوں ، مارشل لاء اور آمریت کے خلاف طویل اور صبر آزما جدوجہد کی ہے لیکن بدقسمتی سے جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خلاف جدوجہد کو ملک سے دشمنی گردانا گیا جس سے ملک اور صوبہ مشکلات کا شکار ہوتا گیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سوئی اور سیندک کی مثالیں ہمارے عوام کے لیے انتہائی بھیانک ہیں، 1957 سے ملک کو سستی انرجی فراہم کرنے والا علاقہ اب بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، سوئی نے بلوچستان ، وفاق اور پی پی ایل کو بہت وسائل فراہم کئے ،لیکن وہاں پینے کا پانی تک عوام کو میسر نہیں، موجودہ مخلوط حکومت نے ڈیرہ بگٹی کے لیے بلوچستان کے بجٹ سے الگ رقم مختص کی ہے، اس کے علاوہ سیندک سے بلوچستان کو صرف 2فیصد رائلٹی دی جا رہی ہے، اس سے تو کسی تھوک فروش کی آمدن زیادہ ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اپنے قلیل بجٹ سے بلوچستان کو ترقی نہیں دے سکتا بلوچستان کو ترقی دینے کے لیے 4سے 5سو ارب روپے درکار ہونگے، انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک کے 40خود مختار اداروں میں صوبے کا ایک بھی شخص سربراہ نہیں، فارن سروس میں بھی یہی صورتحال ہے، ملازمتوں کے کوٹے پر بھی موثر عملدرآمد کا فقدان ہی رہا ہے، انہوں نے کہا کہ دو سال پہلے کی نسبت آج کا بلوچستان تبدیل شدہ بلوچستان ہے، مخلوط حکومت کی موثر حکمت عملی کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے، بلوچستان کی تمام شاہراہیں محفوظ ، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں نمایاں بہتری آئی ہے، پولیس کے محکمہ کو سیاسی مداخلت اور سفارش سے آزاد کر کے مکمل بااختیار بنا دیا گیا، سیکریٹری صاحبان ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی پر معمور ہیں ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں اور اس سلسلے میں آل پارٹیز کانفرنس اور عسکری قیادت نے مذاکرات کا جو اختیار مجھے سونپا تھا جس کے حوصلہ افزاء امکانات پیدا ہوگئے ہیں،انہوں نے کہا کہ ہم حقیقت پسند لوگ ہیں اور الزامات کے کھیل پر یقین نہیں رکھتے جو چیزیں ہماری کرنے کی ہیں اس سے ہم عہدہ برا ہو رہے ہیں ، تعلیم کے شعبے کی بہتری کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے ہیں، تعلیم کا بجٹ 4فیصد سے بڑھا کر 24فیصد کر دیا گیا ہے، صوبے میں چھ نئی یونیورسٹیاں ، 3نئے میڈیکل کالجز قائم کئے جا رہے ہیں، 8کیڈٹ کالجز، 5بلوچستان ریزیڈنشل کالجز بھی تکمیل کے آخری مراحلے میں ہیں، گھوسٹ اساتذہ کے خلاف بھرپور کاروائی کی گئی ہے، سکولوں، اساتذہ اور طلباء کی مسلسل نگرانی کے لیے حکومت نے "ایجوکیشنل مینجمنٹ سسٹم"بنا رکھا ہے جسے صوبائی دارلحکومت سے مانیٹر کیا جا رہا ہے، وزیراعلیٰ نے بتایا کہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ این ٹی ایس کے ذریعے 5ہزار اساتذہ بھرتی کئے گئے ، بلوچستان پبلک سروس کمیشن میں اصلاحات سے لوگوں کا اعتماد بحال ہو گیا ہے، اس کے علاوہ اڑھائی سال میں کسی بھی شخص کے خلاف دائر مقدمے کو ختم نہیں کیا گیا، کسی ایک بھی سرکاری افسر کی ملازمت میں توسیع نہیں کی گئی، میلینیئم گول کے عشاریے سامنے رکھ کر حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے، اس کے علاوہ محکمہ صحت اور تعلیم میں اختیارات نچلی سطح تک منتقل کر دئیے گئے ہیں، بلوچستان حکومت نے ملک میں سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کرائے اور 10سالوں بعد صوبائی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں قائم کی گئیں ہیں۔

جبکہ کوئٹہ کو فراہمی آب کے لیے وفاق منگی ڈیم تعمیر کر رہی ہے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں 10سالوں سے زیر التواء گوادر رتو ڈیرو اور چمن خضدار شاہراہ کی تعمیر پر تیزی سے کام جاری ہے، اسکے علاوہ ڈی جی خان لورالائی اور دادو خضدار ٹرانسمیشن لائنوں کی تکمیل سے بلوچستان میں توانائی کے بحران پر بھی کسی حد تک قابو پا لیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ کچھی کینال جون 2016 تک ڈیرہ بگٹی تک مکمل ہو جائے گی، جس سے بہت وسیع رقبہ قابل کاشت بنایا جا سکے گا، وزیراعلیٰ بلوچستان نے بلوچستان کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کی معیشت میں زراعت کا کردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے اور اس کا انحصار دو اضلاع کو چھوڑ کر زرعی ٹیوب ویلوں پر ہے، صوبے میں ڈیمز نہ ہونے کے باعث ایک جانب سیلابی پانی ضائع ہو جاتا ہے اور دوسری جانب لورالائی سے خضدار تک 10سے 20سالوں میں زیرزمین پانی کے ذخائر ختم ہونے کا خدشہ ہے، بروقت اور فوری اقدامات نہ ہوئے تو صوبے کا وسیع علاقہ صحرا میں تبدیل ہو جائیگا، انہوں نے کہا کہ ہم نے وفاق سے اس ضمن میں درخواست کی ہے کہ اس سنگین صورتحال میں ہماری مدد کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ معدنیات کے شعبے میں بہتری کے لیے بھی موثر اقدامات اٹھائے گئے ہیں اس ضمن میں بلوچستان منرل ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی ہے تاکہ اس شعبے میں شفافیت لا کر اسے صوبے کی ترقی کے لیے بروئے کار لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سیلابی پانی کو ضائع ہونے سے بچانے اور معدنیات کے شعبے کو ترقی دیکر یہاں معاشی انقلاب لایا جا سکتا ہے، انہوں نے شرکاء کو مزید بتایا کہ موجودہ حکومت نے پسنی اور گوادر میں لاکھوں ایکڑ اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ منسوخ کر دی ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان ملک کی ترقی کا گیٹ وے ہے، ملک کی ترقی بلوچستان سے وابستہ ہے اور بلوچستان کی خوشحالی و ترقی امن سے وابستہ ہے جس کے لیے صوبائی حکومت انتہائی سنجیدہ بھی ہے اور اس پر عمل پیرا بھی