پاکستان کئی دہائیوں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے، قومیت کا نہ ہونا بچوں پر انتہائی ظالمانہ فعل ہے ، تمام ممالک اس کے خلاف کی پارلیمنٹ کو مل کر کام کریں

پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر کا کیپ ٹاؤن میں اقوام متحدہ اور انٹرپارلیمنٹری یونین کانفرنس سے خطاب

جمعہ 27 نومبر 2015 22:38

کیپ ٹاؤن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔27 نومبر۔2015ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا ہے کہ ممبر ممالک کی پارلیمنٹ کو چاہیے کہ قومیت کا نہ ہونا بچوں پر انتہائی ظالمانہ فعل ہے جس کے خلاف تمام ممالک کی پارلیمنٹ کو مل کر کام کرنا چاہیے، پاکستان کئی دہائیوں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے اور اس دوران افغان پناہ گزینوں کے ہاں بچے بھی پیدا ہوئے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ افغانستان کی قومیت کے دستاویزات ان کے پاس نہ ہوں تو ایسی صورتحال میں مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے اس لئے اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ قومیت کے نہ ہونے کے بارے میں ایسے مصدقہ اعدادوشمار اکٹھے کئے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ بچے کے پاس قومیت نہ ہونے سے انسانی حقوق کی بہت سنجیدہ خلاف ورزیاں ہوتی ہیں اور اس کی وجہ سے وہ بچہ جرائم پیشہ افراد اور عسکریت پسند جنگجوؤں کی جانب سے استحصال کا شکار ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

و ہ جمعہ کو جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں اقوام متحدہ اور انٹرپارلیمنٹری یونین کانفرنس کے اجلاس کی دوسرے روز صدارت کر رہے تھے ۔ اس کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر اور پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر جان کینیٹ ولیمز کر رہے ہیں۔

یہ کانفرنس قومیت کے نہ ہونے کے مسئلے پر منعقد ہو رہی ہے اور ساری دنیا کے 100 سے زائد ممالک اس کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔ آج کے سیشن جو کہ ان بچوں کے متعلق تھا جن کی کوئی قومیت نہیں ہے، کی صدارت کے لئے سینیٹر فرحت اﷲ بابر کو نامزد کیا گیا تھا۔ اس دو روزہ کانفرنس میں مختلف امور زیر بحث آئے جن میں کسی فرد کی قومیت کا نہ ہونا، قومیت کے قوانین میں صنفی امتیازجس سے قومیت کے نہ ہونے پر اثر پڑتا ہے اور اس مسئلے پر ایک عالمی قانونی فریم ورک بنانا شامل تھا۔

جس سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی بچہ قومیت کے بغیر نہیں پیدا ہوگا۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ پاکستان کئی دہائیوں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے اور اس دوران افغان پناہ گزینوں کے ہاں بچے بھی پیدا ہوئے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ افغانستان کی قومیت کے دستاویزات ان کے پاس نہ ہوں تو ایسی صورتحال میں مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے اس لئے اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ قومیت کے نہ ہونے کے بارے میں ایسے مصدقہ اعدادوشمار اکٹھے کئے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ بچے کے پاس قومیت نہ ہونے سے انسانی حقوق کی بہت سنجیدہ خلاف ورزیاں ہوتی ہیں اور اس کی وجہ سے وہ بچہ جرائم پیشہ افراد اور عسکریت پسند جنگجوؤں کی جانب سے استحصال کا شکار ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس بات پر تحقیق کی جائے کہ قومیت کا نہ ہونا اور انتہاپسندی میں کوئی تعلق ہے کہ نہیں تو اس بات سے دہشتگردی کے مسئلے کو سمجھنے میں مزید آسانی ہو سکتی ہے۔

سینیٹر جان ولیمز نے کہا کہ اقوام متحدہ کا 1954ء اور 1961ء کا کنونشن ہمیں اس مسئلے کے قانونی فریم ورک کے لئے مدد فراہم کرتا ہے اور مختلف ممالک میں وہاں کے مقامی حالات کے اعتبار سے قومیت کے نہ ہونے کی تحقیق کی جا سکتی ہے۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے قومیت کے قوانین میں صنفی امتیاز کے متعلق کہا کہ پاکستان کے قومیت کے قانون میں صنفی امتیاز 2000ء میں ختم کر دیا گیا تھا اور اس وقت لفظ "باپ" کی بجائے "والدین" استعمال کیا گیا تھا۔

اس سے مائیں بھی اپنے بچوں کو قومیت منتقل کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور انٹرپارلیمنٹری یونین کانفرنس کو چاہیے کہ اس بیانئے میں تبدیلی لائی جائے کہ پارلیمنٹ کے پاس طاقت اور اختیار ہے کہ وہ قومیت نہ ہونے کے مسئلے کو ختم کر سکتی ہے کہ نعرے کو اب یہ ہوجانا چاہیے کہ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرینز کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قومیت نہ ہونے کے مسئلے کو ختم کریں۔