40ارب روپے کے بقایا جات ،وفاقی حکومت اورنجی پاور و گیس کمپنیوں کے درمیان اختلافات برقرار

ہفتہ 28 نومبر 2015 13:26

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔28 نومبر۔2015ء) وفاقی حکومت اور نجی پاور و گیس کمپنیوں کے مابین”گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس“ کی ادائیگیوں کے معاملے پر جاری مذاکرات ناکام ہو گئے ،سی این جی سیکٹر نے40ارب روپے کے بقایا جات پر اختلافات کے باعث وزارت خزانہ کو ادائیگیوں سے انکار کردیا جبکہ وفاقی حکومت نے ایل این جی منصوبے پر فنڈز خرچ کرنے کے لئے سوئی سدرن اور نادرن گیس کمپنیوں کو رقم کا خود انتظام کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے 2012ء میں گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کا نفاذ کیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ اس مد میں اکٹھی ہونیوالی رقم تاپی گیس ، ایل این جی اور پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبوں پر خرچ کی جائیگی ۔بعد ازاں وفاقی حکومت نے 2012ء سے 2015ء تک 136ارب روپے وصول کئے جبکہ اتنی ہی رقم سی این جی سیکٹر آئی پی پیز اور گیس کمپنیوں سے وصول نہیں کی جاسکے جس کی وجہ وفاق اور متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے مابین پائے جانیوالے اختلافات ہیں جن کو حل کرنے کے لئے اب تک کی جانیوالی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں ۔

(جاری ہے)

ذرائع کے مطابق سوئی نادرن اور سوئی سدرن گیس کمپنیوں کی جانب سے وزارت خزانہ کو جاری مراسلہ میں جی آئی ڈی سی کی مد میں اکٹھی ہونیوالی رقم ایل این جی منصوبے پر خرچ کرنے کے لئے مانگی گئی جس کے جواب میں وزارت خزانہ نے متعلقہ کمپنیوں کو جاری مراسلہ میں کہا کہ ایل این جی منصوبے کے انفراسٹرکچر پر لاگت125ارب روپے ہے اور اس رقم کا انتظام دونوں کمپنیاں خود کریں۔

ذرائع کے مطابق سی این جی سیکٹر کے ذمہ 40ارب روپے کے بقایا جات ہیں جن کی وصولی کے لئے متعلقہ شعبہ سے کئی بار میٹنگ کی گئیں لیکن سی این جی سیکٹر جی آئی ڈی سی کے بقایا جات ادا کرنے سے انکاری ہے اس حوالے سے سی این جی ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ اوگرا نے 2012ء سے اب تک گیس ٹیرف مقرر نہیں کیا جبکہ آپریٹنگ کاسٹ بھی طے نہیں کی گئی اس کے باوجود حکومت کو اکیس ارب روپے ادا کیے جاچکے ہیں ۔ذرائع نے بتایا کہ سوئی نادرن سے 62 ارب روپے ، سدرن گیس والوں سے 6ارب روپے ، مری پٹرولیم سے 23ارب91کروڑ اور پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ سے ایک ارب سات کروڑ روپے وصول کیے جانے ہیں۔

متعلقہ عنوان :