پارلیمان میں ہنگامہ آرائی روکنے کے لئے مودی کا سونیا گاندھی اور من موہن سنگھ سے پہلا رابطہ

ہفتہ 28 نومبر 2015 13:57

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔28 نومبر۔2015ء) وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمان کا اجلاس خوش اسلوبی سے چلانے اور ہنگامہ آرائی روکنے کے لیے حزبِ اختلاف کی رہنما سونیا گاندھی اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ سے پہلی بار بات چیت کی ہے جبکہ عالمی میڈیا نے بھارت میں موجودہ سیاسی صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں میڈیا کی جانبداری رفتہ رفتہ ختم ہو رہی ہے، اکثر اخبارات اور ٹی وی چینلز کسی مشکل میں پڑنے سے بچنے کیلیے حکومت نواز ہو چکے ہیں۔

ٹی وی چینلوں پر بحث کے بجائے چیخنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق پارلیمان کا گذشتہ اجلاس حکمراں جماعتوں اور حزب اختلاف کیدرمیان اختلاف کے سبب تعطل کا شکار رہا تھا۔اجلاس کے دوران تقریباً کوئی کاروائی نہیں ہو سکی تھی۔

(جاری ہے)

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بھارتی جمہوریت کا سب سے بڑا ادارہ غیر جمہوری طریق کار کا یرغمال بنا ہے۔سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے اقتدار میں بی جے پی نے کئی بار پارلیمانی اجلاس چلنے نہیں دیا تھا جس کی وجہ سے پارلیمان میں بحث ومباحثے کا راستہ ہی بند ہو گیا تھا۔

اب جب بی جے پی اقتدار میں آ گئی ہے تو پارلیمان معطل کرنیکا وہی طریق کار کانگریس نے اختیار کر لیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جن سوالوں پر بی جے پی نے کانگریس کے دور میں پارلیمان کو مفلوج کر رکھا تھا کانگریس بھی اب انہی سوالوں پر اسے جواب دے رہی ہے۔لیکن سیاسی انتقام کی اس لڑائی میں جمہوریت کا سب سے بڑا ادارہ اور ملک کا سیاسی نظام رفتہ رفتہ اپنا اعتبار اور احترم کھوتا جا رہا ہے۔

ایک طویل عرصے سے پارلیمان میں سنجیدہ اور بامعنی بحث ومباحثے کا کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ پارلیمان میں اب کوئی بحث ہو بھی جاتی ہے تو اکثر بحث برائے بحث اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہوتی ہے۔ایک وقت تھا جب پارلیمان میں بحث کا معیار اعلیٰ ہوا کرتا تھا، مختلف مسائل پر الگ الگ آرا ہوا کرتی تھی اور قانون ساز تعمیری انداز میں ملک کے مسائل کا حل تلاش کرتے تھے۔

سیاسی جماعتوں میں نظریاتی اختلافات اب باہمی نفرت کی شکل اختیار کر رہا ہے۔پارلیمان کی ہی طرح عدلیہ بھی جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے۔بھارت کی عدلیہ ایک خود مختار اور آزاد ادارہ ہے اور عام طور پر اسے ایک ایماندار اور غیر جانبدار ادارہ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ اس ادارے کے وقار اور اہلیت پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ملک کی عدالتوں میں کئی کروڑ مقدمے برسوں سے التوا میں پڑے ہیں اس سینہ صرف یہ کہ انصاف کا عمل بری طرح مجروح ہو رہا ہے بلکہ اس سے عدلیہ کی ساکھ کو بھی زک پنہچ رہی ہے۔

اب ججوں کی تقرری کے سوال پر بھی پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے حال ہی میں حکومت کے ایک قانون کوغیر آئینی قرار دیا ہے جس کے تحت ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری حکومت کے مقرر کردہ ایک نئے عدلیاتی کمیشن کے ذریعے کیے جانیکی تجویز تھی۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ عدلیہ کی آزادی برقرار رکھنے کیلیے ججوں کی تقرری سینیئر ججوں پر مشتمل موجودہ کالی جیئم کے ذریعے ہی کی جائے گی۔

بی جے پی کے سینیئر رہنما اور ماہر قانون ارون جیٹلی نے کہا ہے کہ ملک کسی آمریت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔مقننہ اور عدلیہ میں ٹکراوٴ ابھی جاری ہے۔ اس دوران ممبئی ہائی کورٹ کے ایک سابق جج نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آنے والے برسوں میں ہندوتوا کے نظریات کے حامل جج ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں فائز ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت تقریباً 400 عہدے خالی ہیں اگراس طرح کے نظریات کے جج بڑی تعداد میں آ گئے تو عدلیہ پر یقینا برا اثر پڑے گا۔

میڈیا کی جانبداری رفتہ رفتہ ختم ہو رہی ہے۔ صحافت سے معروضیت غائب ہو رہی ہے۔ اکثر اخبارات اور ٹی وی چینلز کاروباری وجوہات اور کسی مشکل میں پڑنے سے بچنے کیلیے حکومت نواز ہو چکے ہیں۔ صحافت میں غیر جانبداری ایک فطری اصول نہیں اب ایک چیلنج ہے۔ ٹی وی چینلوں پر بحث کے بجائے چیخنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔بھارت کی بدلتی ہوئی سیاست میں ملک کے جمہوری ادارے بھی اس وقت زبردست دباوٴ اور تغیر سے گزر رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :