اردن،جنسی ہراساں کرنے کے قانون پر عوام کی تنقید ،اصلاح کا مطالبہ

جنسی ہراساں کی جانی والی خواتین کو شادی پر آمادہ کیا جاتا ہے جو سراسرزیادتی ہے،عوامی حلقے

جمعہ 4 دسمبر 2015 18:31

اردن،جنسی ہراساں کرنے کے قانون پر عوام کی تنقید ،اصلاح کا مطالبہ

عمان (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔04 دسمبر۔2015ء)اردن میں ان دنوں ملک کا ایک قانون عوامی اور سماجی حلقوں میں سخت تنقید کی زد میں ہے۔ آئین کے آرٹیکل 308 کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ قانون ملک میں جنسی جرائم اور خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی حوصلہ افزائی کا موجب بن رہا ہے جب کہ خواتین کے پاس اس کے مقابلے میں تحفظ کا کوئی قانونی راستہ نہیں ہے۔

عرب ٹی وی کے مطابق آئین کے آرٹیکل 308 میں جنسی ہراسانی سے نمٹنے کا انوکھا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ جنسی ہراسانی مرتکب کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی کے بجائے متاثرہ خاتون کو نکاح پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس طرح مملکت میں اس جرم کی نہ صرف حوصلہ افزائی ہو رہی ہیں بلکہ متاثرہ خواتین کو انصاف کی فراہمی میں بھی رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔

(جاری ہے)

میڈیا رپورٹس کے مطابق اردن میں دسیوں خواتین اس آئینی نا انصافی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں، پچھلے پانچ برسوں کے دوران ایسے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں جب کوئی متاثرہ خاتون اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کا کیس پولیس کے پاس لے کر جاتی ہے تو پولیس ملزم کے خلاف کارروائی کے بجائے متاثرہ خاتون کو اسی ملزم سے نکاح پر مجبور کرتی ہے۔حال ہی میں سیکڑوں خواتین سماجی کارکنوں اور معاشرتی بہبود کے لیے سرگرم 50 تنظیموں نے ایک مشترکہ یاداشت پر دستخط کرنے کے بعد حکومت سے آرٹیکل 308 کی منسوخی کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے جنسی ہراسانی کی روک تھام کے لیے سخت قانون منظور کرنے بھی زور دیا ہے مگر قانون ساز حلقوں پراس کا خاطر خواہ اثر نہیں دکھائی دیا۔اْردن میں جنسی ہراسانی پر انصاف نہ ملنے کے لا تعداد واقعات ہیں مگرروان نامی ایک 22 سالہ لڑکی کا کیس ذرائع ابلاغ میں بھی مشہور ہوا روان ایک امیرزادے کے ہاں گھریلو ملازمہ تھی جہاں اس کے مالک نے اسے جبری جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

اس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئی مگر خوف کی وجہ سے اپنے گھروالوں کو بھی اس کے بارے میں بتانے سے کتراتی رہی۔ آخر جب حمل کا انکشاف ہوا تو روان کے اہل خانہ نے ملزم سے بات کی اس نے ایک بھی نہ سنی اور مسلسل انکار کرتا رہا۔ روان یہ کیس پولیس کے پاس لے گئی۔ پولیس نے ڈی این اے کے ذریعے یہ ثابت بھی کر لیا یہ حمل اسی شخص کا ہے مگر بے رحم معاشرے میں روان کی پکار سننے والا کوئی نہ تھا۔

پولیس کچھ نہ کر سکی تو روان پر دباؤ ڈالنے لگی کہ وہ 49 سالہ شخص کے ساتھ شادی پر آمادہ ہو جائے کیونکہ اس نوعیت کے کیسوں آئین میں اس کے سوا اور کوئی حل نہیں ہے۔اردن میں یہ اس نوعیت کے کیسز ایک دو نہیں بلکہ بے شمار ہیں مگر جنسی ہراسانی کی روک تھام کے قوانین کی عدم موجودگی کے نتیجے میں اس سماجی جرم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔