علی احمد کرد عدلیہ بحالی پر لکھی جانے والی کتاب جلد منظر عام پر لائیں گے

وکلاء تحریک کو فنڈز کہاں سے ملے؟وجہیہ الدین کا بطور صدارتی امید وار نام کیسے آیا؟تحریک کے دوران ایک شخص نے ان کے کان میں کیا پیغام دیا ،زندگی کے 7 سال جیل میں کیسے گزارے،سابق صدر سپریم کورٹ بار نئی کتاب میں انکشاف کریں گے

اتوار 6 دسمبر 2015 15:27

علی احمد کرد عدلیہ بحالی پر لکھی جانے والی کتاب جلد منظر عام پر لائیں ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن06دسمبر۔2015ء) سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل ، سابق صدر سپریم کورٹ بار اور وکلاء تحریک کے اہم ترین راہنما علی احمد کرد نے عدلیہ بحالی تحریک کے اندرونی معاملات ، لمحہ بہ لمحہ بلدتی صورت حال سے پردہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ علی احمد کرد اپنی کتاب لکھ رہے ہیں جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ وکلاء تحریک نے جسٹس(ر) وجیہہ الدین احمد کو صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد نہیں کیا تھا ان کا نام اتفاقی طور پر سامنے آیا ۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے ساتھ دورے کے دوران ایک شخص نے اچانک آ کر کہا کہ آج کچھ ہونے والا ہے آپ احتیاط کریں ۔ وکلاء تحریک کو فنڈز کہاں سے ملے؟ چیف جسٹس سمیت 17 ججز کے روبرو ایک تقریر کے بعد ان کو ایک شخص سے ملنے والا پیغام میں ذہنی دھچکا کیا تھا؟ سابق صدر ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک 7 سال جیلوں میں گزار دیئے ۔

(جاری ہے)

آن لائن کو علی احمد کرد کے قریبی دوستوں نے بتایا ہے کہ علی احمد کرد اپنی زندگی اور خاص طور پر عدلیہ بحالی تحریک پر ایک اہم کتاب لکھنے میں مصروف ہیں جس میں کئی انکشافات کئے گئے ہیں لکھی جانے والی کتاب کے 20 ابواب رکھے گئے ہیں جس میں علی احمد کرد نے لکھا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے مقابلے میں ایک وکیل رہنما کا نام بطور صدارتی امیدوار طے ہوا تھا اس وقت جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کا نام دور دور تک موجود نہ تھا ان کا نام اتفاق طور پر سامنے آیا ۔

علی احمد کرد نے ایک اور اہم واقعے سے پردہ اٹھاتے ہوئے نامکمل کتاب میں لکھا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں 17 ججز کے روبرو خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آئی آج بھی عدالتوں میں فرعون بیٹھے ہیں اس تقریر کے بعد ان کی ایک شخصیت سے ملاقات ہوئی تو اس دوران انہیں زندگی کا ایسا ذہنی دھچکا لگا جو کبھی نہیں لگا تھا وہ سوچ کر رہ گئے کہ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں ۔

آن لائن کے ذرائع کے مطابق علی احمد کرد نے ایک اور واقعے کا بھی ذکر کیا ہے کہ جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ جی ٹی روڈ کے ذریعے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے ساتھ شرکت کے لئے گزر رہے تھے کہ اس دوران وکلاء کے جمگھٹے سے انہوں نے خطاب کرنا تھا وہ اترے تو ایک شخص مجمع چیرتا ہوا ان کے نزدیک آیا اور کہنے لگا کہ آج کچھ ہونے والا ہے آپ احتیاط کریں ۔

علی احمد کرد کتاب میں لکھتے ہیں یہ وہ لمحہ فکریہ تھا کہ اگر وہ ایک قدم بھی خوف کی وجہ سے پیچھے کر لیتے تو تحریک برباد ہو جاتی اور کچھ بھی باقی نہ رہتا مگر وہ ثابت قدر رہے ۔ کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ وکلاء تحریک کو فنڈنگ کہاں سے ہوئی وہ اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کے حوالے سے ایک روپیہ بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے اندرون ملک یا بیرون ملک کسی سے لیا ہو ۔ انہوں نے بطور پاکستان بار کونسل وائس چیئرمین اور صدر سپریم کورٹ بار کبھی کسی ڈکٹیشن قبول نہیں کی انہوں نے ہمیشہ آزادانہ فیصلے کئے ۔ انہوں نے جیلوں میں اپنی سیاسی زندگی کے 7 قیمتی سال بھی گزار دیئے انہوں نے ہمیشہ آمروں کے خلاف آواز اٹھائی ۔