منی بجٹ کے حوالے سے غلط تاثر دیا جا رہا ہے، 40ارب روپے کے ٹیکس امپورٹڈ اشیاء پر لگائے گئے ، عام آدمی متاثر نہیں ہو گا، کتے بلیوں کی خوراک پر ٹیکس لگایا ، پالتو جانوروں کے ساتھ تصاویر بنانے والوں کو بھی پیسے دینا ہونگے،40ارب کا خسارہ پورا کرنے کیلئے اشیاء پر ٹیکس لگانے کی سفارش کی گئی تھی،61اشیاء پر پہلی دفعہ5سے10فیصد ڈیوٹی لگائی گئی ،عام آدمی کے استعمال کی کسی چیز پر ٹیکس نہیں لگایا گیا،ٹیکس لگژری اور امپورٹڈ اشیاء پر عائد کیا جارہاہے،حکومت نے فیصلہ سازی میں ہمیشہ مشاورت کو ترجیح دی،2سال میں ٹیکس وصولیوں کی شرح میں16فیصد اضافہ ہوا،ٹیکس وصولیوں کا ہدف3104ارب مقررکیا،معیشت کو سیاست سے الگ کرنے سے آسانیاں پیدا ہوں گی،پی آئی اے کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے قانون سازی کررہے ہیں،قومی ایئرلائن کو ایک منافع بخش قومی ادارہ بناناچاہتے ہیں،نئے آرڈیننس میں ملازمین کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیاہے،پی آئی اے ملازمین کے حقوق کسی صورت سلب نہیں ہوں گے نہ ہی پی آئی اے کی نجکاری کی جا رہی ہے

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کا اسمبلی میں پالیسی بیان

پیر 7 دسمبر 2015 22:04

منی بجٹ کے حوالے سے غلط تاثر دیا جا رہا ہے، 40ارب روپے کے ٹیکس امپورٹڈ ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔07 دسمبر۔2015ء ) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ منی بجٹ کے حوالے سے غلط تاثر دیا جا رہا ہے، چالیس ارب روپے کے ٹیکس امپورٹڈ اشیاء پر لگائے گئے ہیں، عام آدمی متاثر نہیں ہو گا، کتے بلیوں کی خوراک پر ٹیکس لگایا ، پالتو جانوروں کے ساتھ تصاویر بنانے والوں کو بھی پیسے دینا ہونگے،40ارب کا خسارہ پورا کرنے کیلئے اشیاء پر ٹیکس لگانے کی سفارش کی گئی تھی،61اشیاء پر پہلی دفعہ5سے10فیصد ڈیوٹی لگائی گئی ،عام آدمی کے استعمال کی کسی چیز پر ٹیکس نہیں لگایا گیا،ٹیکس لگژری اور امپورٹڈ اشیاء پر عائد کیا جارہاہے،حکومت نے فیصلہ سازی میں ہمیشہ مشاورت کو ترجیح دی،2سال میں ٹیکس وصولیوں کی شرح میں16فیصد اضافہ ہوا،ٹیکس وصولیوں کا ہدف3104ارب روپے مقررکیاہے،معیشت کو سیاست سے الگ کرنے سے آسانیاں پیدا ہوں گی،پی آئی اے کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے قانون سازی کررہے ہیں،قومی ایئرلائن کو ایک منافع بخش قومی ادارہ بناناچاہتے ہیں،نئے آرڈیننس میں ملازمین کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیاہے،پی آئی اے ملازمین کے حقوق کسی صورت نہیں ہوں گے،پی آئی اے کی نجکاری نہیں ہو رہی ہے بلکہ پارٹنر شپ کی گئی ہے، اپوزیشن ہمارے ساتھ بیٹھے ہمیں قائل کرے، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پی آئی اے اگر منافع بخش ہے تو خیبرپختونخوا میں صرف2ایئرپورٹس کیوں فنکشنل ہیں، پی آئی اے پروازیں چلائی گئیں تو عوام کا اعتماد بحال ہو گا، محمود خان اچکزئی نے کہا کہ وزیراعظم کی سربراہی میں ان معاملات پر کمیٹی بنائی گئی جائے، حکومت اور اپوزیشن میں سے جس نے بھی قائل کیا اس کا ساتھ دیں گے۔

(جاری ہے)

پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں بجٹ اور پی آئی اے کے حوالے سے پالیسی بیان دیتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم نے جو بھی فیصلے کئے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر آگے بڑھے ہیں، موجودہ حکومت اور وزیراعظم کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ گفت و شنید کے ساتھ معاملات کو حل کیا جائے، آرٹیکل 77کے مطابق مجلس شوریٰ کے فیصلے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا ہے، ہم نے کہا وہ پاکستان چلانا ہے کہ جو 2013سے پہلے تھا،2سال میں اس ملک نے ٹیکس 3فیصد سے بڑھا کر16فیصد حاصل کئے ہیں اور بڑھوتری ہوئی اور 3104ارب روپے جو 20فیصد گروتھ ہے ہماری ضرورت ہے، پہلے کوارٹر میں 640 ارب ہم نے ٹیکس لینا تھا مگر600ارب وصول ہوا اور 40ارب باقی رہ گیا ہے، پچھلی حکومتوں میں جو بجٹ میں ہوا تھا سب کے سامنے ہے، تقابلی جائزہ لیں خود پتہ چل جائے گا،14فیصد کی وجہ 40ارب کی شارٹ فال کو پورا کرنا ہے اس ٹیکس کا 40فیصد صولوں کو جاتا ہے، صوبوں کو اپنے حصے سے ان کے منصوبوں کی تکمیل کیلئے دیئے جاتے ہیں، میرا تو یہ خیال تھا کہ اسمبلی مجھے داد دے گی کہ میں نے منی بجٹ لایا، امپورٹ ویلیو کم ہو گی تو شارٹ فال میں اضافہ ہو گا،1400آئٹمز پر ٹیکس لگانے کی سفارش کی گئی تھی مگر ہم نے ہر آئٹمز کو چیک کیااور انہی پر ٹیکس لگایا جو لگژری آئٹمز ہیں، کسٹمز ایکٹ کے تحت ریگولیٹری ڈیوٹی درآمدی اور برآمدی اشیاء پر لگایا جا سکتا ہے، ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی 35فیصد تک گنجائش ہے، ہم نے ایک فیصد لگائی ہے، یہ تمام قوانین اس مقصد ایوان نے منظور کئے ہیں، 4آئٹمز کو قانون کے مطابق لیوی کیا گیاہے۔

فیڈرل ایکسٹائز ڈیوٹی کے ایکٹ کے تحت ڈیوٹی لگائی گئی اور 61آئٹمز پر ڈیوٹی لگائی گئی ہے، جن کو پاکستان کی مرغی اور دہی اور پانی باہر سے منگواتے ہیں جو کہ 61اشیاء ہیں جن میں عام آدمی کے استعمال کیلئے کوئی شے نہیں ہے اور امیر آدمی پر ٹیکس لگایا جو امپورٹڈ اشیاء استعمال کرتا ہے، 350ٹوٹ اشیاء ہیں جن پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی ہے اور 61پر پہلی دفعہ اور دیگر اشیاء پر 5سے 10فیصد ڈیوٹی بڑھائی ہے، اگر کسی نے جانوروں کے ساتھ تصویریں نکالنی ہیں اور ان کے کھانے کیلئے باہر سے اشیاء منگوا رہے ہیں ان کو ٹیکس بھی دینا ہو گا، آج پاکستان کو دنیا کے 22ادارے پاکستان ترقی کے معترف ہیں، اگر جانور اتنے ہی پیارے رکھے ہیں تو ان کی خوراک کیلئے چیزیں منگوانے پر ٹیکس بھی دیناہو گا، ایک فیصد ہم نے ایڈیشنل ڈیوٹی لگائی ہے، صرف اور صرف امپورٹڈ آئٹمز پر لگائی ہے، ہسپتالوں اور زرعی مشینری اور زراعت کے فروغ کیلئے امپورٹڈ اشیاء پر ٹیکس نہیں لگایا گیا، 25انڈسٹریز کو ایک فیصد ڈیوٹی سے استثناء حاصل ہے، اس کے علاوہ جتنی چیزیں ہیں انپر ٹیکس لگایا گیا ہے،1000سی سی سے اوپر گاڑیوں پر 10فیصد ڈیوٹی لگائی ہے، ہم نے جانچ پڑتال کے بعد 1400اشیاء سے 350اشیاء پر ٹیکس لگایا ہے، سگریٹ پر 12پیسے فی سگریٹ اضافہ ہوا ہے اور کم ویلیو والے سگریٹ پر 10فیصد ٹیکس بڑھایا گیا ہے، کوئی یہ بتا دے کر یہ غلط ہے تو ہم اس پر غور کر سکتے ہیں،ہماری ترجیحات میں ترقیاتی بجٹ کے ساتھ نہیں چھیڑنا ہے، اگر ہم یہ ٹیکس نہ لگاتے تو صوبوں کو 27 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام 30فیصد معاوضے میں اضافہ کیا اور50لاکھ خاندانوں کو دیا جا رہا ہے، ہم حالت جنگ میں ہیں اور 4لاکھ خاندان اس وقت اپنے گھروں سے دور ہیں ان کو باعزت طور پر گھروں میں واپس کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے پاکستان کیلئے قربانیاں دی ہیں، اپوزیشن کی ایک فون کال پر 8فیصد ٹیکس کم کیا ہے اور اب بھی اگر کوئی ایشو ہے تو اپوزیشن ہمیں بتائے، اس کو منی بجٹ کہنا یا غریب آدمی پر زیادتی سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے، اگر ملک محفوظ ہو گا تو ہم ہوں گے، ہمیں سیاست سے بالائے طاق ہو کر ملک کیلئے سوچنا ہو گا، ہم نے تمام طاقت اس ایوان کو دی ہے اور نومبر میں 28فیصد ٹیکس وصول کرنے میں اضافہ ہوا ہے، یہ حکومت آئی ایم ایف کی طرف شوقیہ نہیں گئی تھی، 2010-11 میں قرضہ لیا گیا تھا اور اس قرضے کی 2سال قسط ادا نہیں کی گئی تھی اور ہم نے وہ ادا کئے ہیں اور یہ حکومت پچھلے قرضے ادا کر رہی ہے، پہلے سال میں ایک ارب ڈالر ہم نے اپنے پاس سے پچھلے سالوں کے قرضے دیئے ہیں، جب پاکستان پر پابندی لگی تھی ہم نے اس وقت بھی پاکستان کو چلایا تھا اور ہم اب بھی چلائیں گے، پچھلے پانچ سالوں میں مہنگائی کی شرح بارہ فیصد تھی ،30جون کو 5.34فیصد تھی اور اب تک 1.8 فیصد مہنگائی کی شرح رہ گئی ہے، پاکستانی عوام کیلئے جو مشورہ دیا جائے گا اسے قبول کریں گے، قانونی عمل پر انگلی اٹھانا ٹھیک نہیں ہے،یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ پی پی نے 6ہزار ارب کے قرضے چھوڑے تھے اور اب 19ہزار ارب تک پہنچ چکے تھے اور یہ غلط ہے جب پی پی نے حکومت چھوڑی تو 15ہزار ارب قرضے تھے اور ٹیکس جی ڈی پی کو 15فیصد تک ہم نے لانا ہے اس کیلئے ہمیں مشورہ دیں۔

پی آئی اے کے حوالے سے اسحاق ڈار نے کہا کہ سیشن آج شروع ہوا، سمن سے سیشن شروع نہیں ہوتا ہے اور پی آئی اے آرڈیننس آئین کے مطابق ہے، پی آئی اے 3ارب کے نقصانات تک پہنچ چکی ہے، اپوزیشن نے صرف خبر پڑھی ہے آرڈیننس نہیں پڑھا، ہم نے پی آئی اے کی نجکاری نہیں کی بلکہ ہم نے پارٹنر شپ کی ہے، جو ہبتر ہے ملک کیلئے ہم وہ کر رہے ہیں، 600لوگوں کو ایک جہاز کیلئے بھرتی ہوئی ہے،جون 2013ء میں 18 آپریشنل جہاز تھے اور آج 40جہاز آپریشنل ہیں، آج ہماری حکومت میں 82فیصد ٹائم پر پروازیں پہنچ گئی ہیں، ہمیں مثبت چیزوں کو بھی دیکھنا چاہیے، اگر پی آئی اے کو آزادی دینی ہو گی، ماضی میں بہت سے سرکاری اداروں کو آزاد کیا گیا تھا اور پی آئی اے کا رپوریشن کو منافع بخش ادارہ بنانا چاہتے ہیں، ملازمین کے ساتھ نہیں چھیڑا جائے گا، ان کے حقوق میں کوئی کمی نہیں آئے گی، پی آئی اے کا صرف نام تبدیل ہوا ہے، اگر ہم نے آگے جانا ہے تو ہمیں فیصلے کرنا ہوں گے،پی آئی اے میں نجی حصص 15فیصد ہیں، وہ بھی اسی طرح موجود ہیں ان کے حقوق اسی طرح موجود ہیں، حکومت کے 85حصص ہیں وہ بھی موجود ہیں، اپوزیشن کو تمام باتیں معلوم ہیں، پی آئی اے اب اپنے فیصلے خود کرے گی کیونکہ یہ قومی اثاثہ ہے، کارپوریٹ گورننس کے تحت اب پی آئی اے چلے گی، اپوزیشن ہمارے ساتھ بیٹھنے ہم تیار ہیں اور ہمیں قائل کرے اس آرڈیننس میں نجکاری نہیں کی گئی۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ بڑی گاڑیاں رکھنے والوں پر ٹیکس لگانا چاہیے مگر پی آئی اے قومی ادارہ ہے، وزریاعظم کو تمام پارٹیوں کو بلانا چاہیے اور جو کسی کو قائل کر سکا ہم اس کے ساتھ ہیں ، تمام پارٹیوں سے دو آئینی ماہرین کو لیا جائے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزیراعظم خود وقت نہیں دے سکتے تو اپوزیشن کو اسپیکر بلائے اور اس قومی معاملے پر گفتگو کریں اور اس پر سیاست نہ کی جائے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ پی آئی اے نے ترقی کی ہے اور پشاور اور چترال کے علاوہ باقی تمام ایئرپورٹس بند ہیں اور دو دن جہاز چلا کر بند کرنے سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا اور جن اضلاع میں ایئرپورٹس موجود ہیں وہاں جہاز چلانے چاہئیں۔ اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ تمام پارٹیوں کی نمائندہ کمیٹی تشکیل دینی چاہیے اور ڈیرہ اسماعیل خان میں جہاز کو فنکشنل کیا جائے گا۔