کشمیر میں لڑنے والے دہشت گرد نہیں مجاہدین ہیں، امریکہ میں نائن الیون کے بعد ’مجاہدین‘ کا طالبان کے ساتھ گٹھ جوڑ ہو گیا تھا‘ واجپائی اور میرے درمیان یہ اتفاق ہوا تھا کہ بہت نقصان اور ظلم ہو رہا اس کو ختم کرنا چاہیے، نریندر مودی کے دماغ میں یہ بات نہیں ہے، وہ تو پاکستان کو مروڑنا اور دبانا چاہتے ہیں ان کی سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہیں اگر وہ سوچ تبدیل نہیں کریں گے تو معاملہ آگے نہیں بڑے گا،دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان پر صاف نیت سے عمل درآمد نہیں ہو رہا ، حکومت میں کچھ عناصر ہیں جو شدت پسندوں کے ساتھ نظریاتی طور پر ملے ہوئے ہیں، فوج کو حکومت اور بیورور کریسی کی طرف سے جو مدد ملنا چاہیے تھی وہ نہیں مل رہی،لال مسجد آپریشن کافیصلہ درست تھا ’دہشت گردی پریقین رکھنے والوں کے ساتھ یہ ہی ہونا چاہیے تھا، اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی انٹیلی جنس کی ناکامی تھی،اٹھارہویں آئینی ترمیم سے پاکستان کوبہت نقصان پہنچایا گیا ، حکومت میں جب گڑ بڑ ہو رہی ہوتی ہے یقیناً لوگ فوج کے پاس بھاگ کر جاتے ہیں کہ کچھ کرو

آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اورسابق صدر پرویز مشرف کا برطانوی نشریاتی ادارے کوانٹرویو

منگل 8 دسمبر 2015 23:00

کراچی /لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔08 دسمبر۔2015ء ) آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اورسابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ کشمیر میں لڑنے والے دہشت گرد نہیں مجاہدین ہیں، امریکہ میں نائن الیون کے بعد ’مجاہدین‘ کا طالبان کے ساتھ گٹھ جوڑ ہو گیا تھا،واجپائی اور میرے درمیان یہ اتفاق ہوا تھا کہ بہت نقصان اور ظلم ہو رہا اس کو ختم کرنا چاہیے، نریندر مودی کے دماغ میں یہ بات نہیں ہے، وہ تو پاکستان کو مروڑنا اور دبانا چاہتے ہیں ان کی سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہیں اگر وہ سوچ تبدیل نہیں کریں گے تو معاملہ آگے نہیں بڑے گا،دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان پر صاف نیت سے عمل درآمد نہیں ہو رہا ، حکومت میں کچھ عناصر ہیں جو شدت پسندوں کے ساتھ نظریاتی طور پر ملے ہوئے ہیں، فوج کو حکومت اور بیورور کریسی کی طرف سے جو مدد ملنا چاہیے تھی وہ نہیں مل رہی،لال مسجد آپریشن کافیصلہ درست تھا ’یہ دہشت گرد ہیں اور دہشت گردی میں یقین رکھتے ہیں ان کے ساتھ یہ ہی ہونا چاہیے تھا، اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی انٹیلی جنس کی ناکامی تھی،اٹھارہویں آئینی ترمیم سے پاکستان کو نقصان پہنچایا گیا ، حکومت میں جب گڑ بڑ ہو رہی ہوتی ہے یقیناً لوگ فوج کے پاس بھاگ کر جاتے ہیں کہ کچھ کرو ۔

(جاری ہے)

منگل کو برطانوی نشریاتی ادارے کودیئے گئے انٹرویو میں سابق صدر پرویز مشرف نے واضح کیا کہ کشمیر میں طالبان نہیں ہیں’ہم انھیں مجاہدین کہتے ہیں، انھیں کشمیر اور پاکستان میں بہت بڑی مدد حاصل ہے، کشمیر میں جو ظلم ہو رہا ہے لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی بہت ساری تنظیمیں نکلیں جو کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے لیے وہاں لڑنے اور اپنی جان قربان کرنے کو تیار تھیں، انھیں طالبان یا دہشت گرد نہیں کہتے ہیں، وہ تو ہمارے مجاہدین ہیں ہمارے فریڈم فائٹر ہیں۔

مشرف کا کہنا تھا کہ امریکہ میں نائن الیون کے بعد ’مجاہدین‘ کا طالبان کے ساتھ گٹھ جوڑ ہو گیا تھا۔ جنرل مشرف کا کہنا ہے کہ وہ مسئلے کی حل کی طرف جا رہے تھے۔ یہ سنہری موقع ہوتا ہے جب دونوں ممالک کے سربراہ ایک ہی سوچ رکھتے ہوں۔ اٹل بھاری واجپائی اور ان کے درمیان یہ اتفاق ہوا تھا کہ بہت نقصان اور ظلم ہو رہا اس کو ختم کرنا چاہیے۔’اب نریندر مودی کے دماغ میں یہ بات نہیں ہے، وہ تو پاکستان کو مروڑنا اور دبانا چاہتے ہیں ان کی سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہیں اگر وہ سوچ تبدیل نہیں کریں گے تو معاملہ آگے نہیں بڑے گا۔

‘دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کے بارے میں جنرل پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ صاف نیت سے عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے، دل و دماغ سے اس کے حق میں نہیں ہیں اور حکومت میں کچھ عناصر ہیں جو شدت پسندوں کے ساتھ نظریاتی طور پر ملے ہوئے ہیں۔’قومی ایکشن پلان میں فوج کو حکومت اور بیورور کریسی کی طرف سے جو مدد ملنا چاہیے تھی وہ نہیں مل رہی۔‘سابق صدر نے لال مسجد آپریشن کے فیصلے کو درست قرار دیا او کہا کہ انھوں نے جو کیا وہ درست تھا۔

’یہ دہشت گرد ہیں اور دہشت گردی میں یقین رکھتے ہیں ان کے ساتھ یہ ہی ہونا چاہیے تھا جو میں نے کیا۔ اب وہ دوبارہ ابھر رہے ہیں حکومت کو چاہیے کہ فوری ایکشن لے کیونکہ جتنا دیر سے ایکشن لیں گے یہ جن اتنا ہی بڑا ہوتا رہے گا اور پھر بڑا ایکشن لینا پڑے گا۔‘القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کو انھوں نے مفاہمت نہیں انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کو تسلیم کرنا چاہیے لیکن ان کی رائے ہے کہ وہ وہاں ایک بڑے عرصے سے مقیم نہیں تھا بلکہ آتا جاتا رہا ہوگا مقامی لوگوں کے میڈیا پر بیانات سے بھی یہی درست لگتا ہے۔

پرویز مشرف نے رضا ربانی کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ انھوں نے پہلے ہی اٹھارہویں آئینی ترمیم سے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ قومی سلامتی کونسل حکومت اور فوج پر ایک چیک ہے۔ حکومت پر آرٹیکل 58 ٹو بی کا چیک تھا جس کے ذریعے اسمبلی کو تحلیل کر دیا جاتا تھا، لیکن اس میں قباحت یہ تھی کہ صدر صاحب جب چاہتے اسمبلی کو تحلیل کردیتے، آرمی چیف مارشل لا لگا سکتا تھا اب وزیر اعظم اچھی گورننس نہیں کر رہا تو کیا کیا جائے؟ ان تینوں کا حل قومی سلامتی کونسل میں ہے۔

‘پرویز مشرف نے کہاکہ حکومت میں جب گڑ بڑ ہو رہی ہوتی ہے یقیناً لوگ فوج کے پاس بھاگ کر جاتے ہیں کہ کچھ کرو اب وہ کسی ادارتی تنظیم کاری کا حصہ نہیں ہے تو کیا کیا جائے؟ لوگ تو اس کی طرف جاتے ہیں کیونکہ طاقت ادھر ہے۔ جب آپ ان کو قومی سلامتی کونسل کا حصہ بنائیں گے تو کوئی آرمی چیف مارشل لا نہیں لگائے گا۔بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی اور پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے مقدمات میں نامزدکیے جانے کے حوالے سے پرویزمشرف نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ نو مرتبہ عدالتوں میں پیش ہو چکے ہیں، لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان کی پیٹھ میں ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر ہے، جس کو فکس کیا گیا ہے، لیکن یہ خدشہ ہے کہ جھٹکوں وغیرہ سے سلپ ہوکر فریکچر خراب ہوجائے گا اس لیے انھیں احتیاط کرنی ہے۔

’یہ مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں آگے نہیں جا رہے ہیں، ہر ہفتے تاریخ پڑ جاتی ہے یہ بات عدالتوں کو بھی دیکھنا چاہیے۔