پولیس کا ادارہ اپنی ساکھ کھو چکا ہے،کراچی آپریشن کی ساکھ سخت مجروح ہو رہی ہے،الطاف شکور

بدھ 9 دسمبر 2015 17:17

کراچی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ ۔۔09 دسمبر۔2015ء) پاسبان پاکستان کے صدر الطاف شکور نے کہا ہے کہ پولیس کا ادارہ اپنی ساکھ کھو چکا ہے، کراچی آپریشن شروع ہونے پر عوام نے اطمینان اور سکھ کا سانس لیا تھا۔پاسبان نے امن و امان کے قیام کی خاطر کراچی آپریشن کی حمایت کی لیکن عثمان معظم کیس پر جھوٹ پر جھوٹ اور مسلسل جھوٹ کے نتیجے میں پولیس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بالخصوص کراچی آپریشن کی ساکھ کو بھی سخت مجروح کردیا ہے۔

یہ صورتحال سوالیہ نشان اور کراچی کے عوام میں ایک نئی بے چینی پیدا کررہی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ عثمان معظم کی اپنے گھر سے گرفتاری، ایک ماہ 10 دن لاپتہ رکھنے اور بعد ازا ں28 اگست سے 3 ماہ تک رینجرز کی تحویل میں میٹھا رام ہاسٹل سب جیل میں رکھنے اور ا ن کے بیٹے محمد صدیقی کی انہی کے ساتھ ہی گرفتاری اور 4 ماہ 20 دن لاپتہ رکھنے کے پیریڈ کا ذمہ دار کون ہے؟کراچی آپریشن کو عوام کی حمایت ملی لیکن اب اس کی سا کھ بری طرح خطرے میں ہے۔

(جاری ہے)

غیر متعلقہ واقعات میں عثمان معظم اور ان کے بیٹے محمد صدیقی کو پھنسانے کا مقصد کیا پاسبان کو کراچی صوبہ اور ملک بھر کو ڈویثرن کی سطح پر نئے انتظامی یونٹس بنانے کے عوامی مطالبہ کی سزا دی جارہی ہے؟ کیا ان کے مقدمات میں پھنسا کر پاسبان کو آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آزاد عدلیہ کا وقار بحال رکھنے کی خاطر فوجی عدالتوں کے قیام کو چیلنج کرنے اور پی پی او پر سیاسی جماعتوں کی حماقت پر مبنی دستخطوں کے خلاف بات کرنے کی پاداش میں یہ سلوک کیا جا رہا ہے؟ یا ’’ٹھپہ مافیا ‘‘ الیکشن کے خلاف احتجاج پر سزا دی جارہی ہے ؟ عوام کا اعتبار موجودہ سسٹم سے اٹھتا جا رہا ہے۔

وہ کراچی پریس کلب میں پاسبان رہنماؤں ، طارق جمیل، آفتاب الدین قریشی،عبدالحاکم قائد ، رامبیل خان، طارق چاندی والا ، سردار زوالفقار و دیگر رہنماؤں اور عثمان معظم کی اہلیہ صبوحی عثمان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔عثمان معظم کی اہلیہ صبوحی عثمان نے کہا کہ ان کے شوہر عثمان معظم محب وطن اور انسانیت دوست سماجی کارکن کی حیثیت سے گزشتہ 23 برسوں سے مظلوم عوام کی خدمت میں سرگرم عمل ہیں۔

2014 میں پاسبان کے سیاسی جماعت بن جانے کے بعد سرگرم مقبول سیاسی رہنما کی حیثیت سے منظر عام پر آئے ۔ پاسبان کے انتخابی نشان ’’غبارہ‘‘ پر NA-246 کے ضمنی انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں۔ میرے شوہر عثمان معظم اور بیٹے محمد صدیقی بے گناہ ہیں ۔ میرے بڑے بیٹے سعد صدیقی 11 جون کو لاپتہ ہوئے ۔میرے شوہر عثمان معظم نے اس واقعہ پر سمن آباد پولیس کو اطلاع کی ۔

دادرسی نہ ہونے پر سندھ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست نمبر 3656/2015 دائر کی ۔ ابھی اس کی پیروی کر رہے تھے کہ 19 اور 20 جولائی کو عید کے دوسرے دن ہمیں انصاف فراہم کرنے کے بجائے ، عثمان معظم اور میرے بیٹے محمد صدیقی کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ایک ماں اور بیوی کی حیثیت سے آپ میرے دکھ کو محسوس کریں کہ جس کا شوہر اور 2 جوان بیٹے غائب کردئیے تو اس کے گھر میں کیا قیامت بیتتی ہے۔

عثمان معظم اور محمد صدیقی کی گرفتاری پر سندھ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست 4352/2015 دائر کرچکی ہوں لیکن انصاف سے محروم ہوں ۔پاسبان پاکستان کے صدر الطاف شکور نے کہا ہے کہ جب عثمان معظم اپنے بیٹے محمد صدیقی کے ہمراہ 20 جولائی کی درمیانی شب سے رینجرز کی تحویل میں رہے ہیں۔ عثمان معظم کو 28 نومبر کو ان کے بیٹے محمد صدیقی کو رینجرز نے 5 دسمبر کو پولیس کی تحویل میں دیا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہواہے کہ پولیس عثمان معظم سے تفتیش کے نتیجے میں ان کے بیٹے محمد صدیقی کی گرفتاری کے لئے کسی مقام پر چھاپہ مارے، پولیس مقابلہ ظاہر کرے اور پھر محمد صدیقی کی گرفتاری منظر عام پر لائی جائے اور محمد صدیقی سے تفتیش کے نتیجے میں عثمان معظم کا اچانک پچھلے کیس میں ریمانڈ ختم ہونے سے ایک دن پہلے نیا کیس ڈال کر مزید ریمانڈ لے لیا جائے۔

ایک جھوٹ کو ’’سچ ‘‘ ثابت کرنے کے لئے پولیس سے بار بار ’’جھوٹ ‘‘بلوائے جا رہے ہیں جس نے انصاف کا قتل عام ہو رہا ہے۔