ڈاکٹرعاصم نیب کے حوالے‘ تفتیش میں مداخلت سے متعلق درخواست پر ڈی جی رینجرز کو نوٹس

Umer Jamshaid عمر جمشید جمعہ 11 دسمبر 2015 14:23

کراچی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔11 دسمبر۔2015ء) عدالت نے ڈاکٹر عاصم حسین کو نیب کے حوالے کردیاجبکہ ڈاکٹرعاصم کی والدہ کی جانب سے تفتیش میں مداخلت سے متعلق درخواست ڈی جی رینجرز کو نوٹس جاری کردیا۔ڈاکٹرعاصم کو سخت حفاظتی انتظامات میں انسداد دہشت گردی عدالت کے منتظم جج جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کے سامنے پیش کیا گیا، تفتیشی افسر نے بیان دیا کہ ڈاکٹر عاصم کے خلاف تفتیش میں ثبوت نہیں ملے، ہم انہیں رہا کررہے ہیں۔

ڈاکٹر عاصم حسین نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہادہشت گردوں کے علاج سے متعلق جعلی رپورٹس بنائی گئی ہیں،رسیدیں اور رپورٹس کمپیوٹر پر بنائی جاسکتی ہیں ،ہم پاکستان بنانے والے ہیں،بگاڑنے والے نہیں،جوریکارڈ عدالت میں پیش کیا گیا وہ غلط ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ رینجرز کے آپریشن کیخلاف نہیں ہوں ،مجھے اس کیس میں غلط طور پر پھنسایا جارہا ہے ،جرائم پیشہ افراد کے نام ان کے ہسپتال کے ریکارڈ میں ڈال دئیے گئے، مریض کانمبراور ڈیٹا عدالت کو دے دیاگیا، ذاتی مسئلہ بنادیا ہے،اللہ ان کو ہدایت دے،مجھ پر ظلم نہ کریں، جس نے علاج کیا اس ڈاکٹر کو پکڑاجائے، میرے ساتھ ظلم ہورہاہے، رینجرز کی کارکردگی کی حمایت کرتاہوں عدالت میں جھوٹے ثبوت پیش کیے جارہے ہیں۔

سرکاری وکیل مشتاق جہانگیری نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ مجھے کوئی رپورٹ نہیں دکھائی گئی، میں سرکاری وکیل کی حیثیت سے رپورٹ مسترد کرتاہوں، ملزم کے خلاف ٹھوس ثبوت ہیں۔سرکاری وکیل نے کہا کہ ڈاکٹرعاصم نے جے آئی ٹی میں اعتراف کیا کہ انہوں نے دہشتگردوں کاعلاج کرایا۔ انسداد دہشت گردی کی دفعہ نکالنے کو عدالت میں چیلنج کردیاگیا۔

مدعی مقدمہ کو بتائے بغیر تفتیشی افسر تبدیل کیاگیا۔ پہلے تفتیشی افسر نے ملزم کا 11 دن کاریمانڈ لیا۔ تفتیشی افسر نے ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر کابیان لیا،10 گواہوں کے بیان رکارڈ کیے۔ نئیتفتیشی افسرنے5 دن کاریمانڈ لیااور4روز میں ملزم کو بے گناہ قرار دیدیا۔سرکاری وکیل نے کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں تفتیشی افسر کے پاس سیکشن 497 کا اختیار نہیں۔

سیکشن 497 کا اختیار صرف عدالتوں کو حاصل ہے۔ تفتیشی افسر نے انسداددہشتگردی کی دفعات ختم کرکے خود عدالت بننے کی کوشش کی۔ یہ اقدام انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 21ڈی کی خلاف ورزی ہے۔ڈاکٹر عاصم کے خلاف ایف آئی آر جے آئی ٹی کی روشنی میں تیار کی گئی۔ ڈاکٹر عاصم کے خلاف جے آئی ٹی میں 7سینئر افسر شامل تھے۔ جے آئی ٹی کے سربراہ ایس ایس پی ساؤتھ ڈاکٹر فاروق تھے۔

ایس ایس پی ساؤتھ نے ڈاکٹر عاصم کو مجرم رقرار دیا۔ ڈی ایس پی سطح کاافسرکس طرح اعلیٰ پولیس افسران کی تفتیش کونظراندازکرسکتاہے۔ڈاکٹرعاصم کی والدہ کی جانب سے تفتیش میں مداخلت سے متعلق درخواست کی سماعت کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ نے15دسمبرکے لیے ڈی جی رینجرز کو نوٹس جاری کردیا۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ پولیس کی تفتیش میں رینجرز کو مداخلت سے روکا جائے۔

متعلقہ عنوان :