اردو کانفرنس کے ’بیاد رفتگاں‘ میں جمیل الدین عالی، شاہدہ احمد، فتح یاب علی خان،رئیس فرغ، علی حیدر ملک اور جمال میاں فر نگی محلی کو خراج عقیدت پیش کیا گیا

جمعہ 11 دسمبر 2015 21:13

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔11 دسمبر۔2015ء) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کے ااخری دن کے تیسرے اجلاس’بیاد رفتگاں‘ میں جمیل الدین عالی، شاہدہ احمد، فتح یاب علی خان،رئیس فرغ، علی حیدر ملک اور جمال میاں فر نگی محلی کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔جس کی نظامت کے فرائض آغا شیرازی نے انجام دیئے۔

جمیل الدین عالی کے ساتھ اپنے گزرے ہوئے ایام کی یادیں دہراتے ہوئے پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ جمیل الدین عا لی بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے ۔وہ ادبی سماجیات کے قائد بھی تھے۔عالی جی کی شخصیت خط مستقیم نہیں تھی بلکہ وہ کئی پہلو رکھتے تھے۔انہوں نے رائٹر گلڈ تشکیل دی جس میں غلام عباس، شاہد احمد دہلوی، شوکت صدیقی ، ممتاز شریں، صوفیہ کمال، صلا ح الدین محمد ، قراۃ العین حیدر و دیگر شخصیات شامل تھیں۔

(جاری ہے)

وہ ایک اچھا فورم تھا جس میں ایوب خان اپنی کا بینہ کے ساتھ تشریف لائے تھے۔عالی جی نے انہیں کہا کہ آپ حا ضرین میں بیٹھیں جبکہ تقریب کی صدارت با بائے اردو مولوی عبدالحق نے انجام دی تھی۔ عالی جی 1950سے لکھ رہے تھے انہوں نے بے شمار کالم لکھے ان کی غزلیں ، دوحے اور قومی و ملی نغمے بھی ہمارے لئے ایک اثاثہ ہیں۔ ان کی وفات سے جو خلاء پیدا ہو گیا ہے وہ مشکل سے پو را ہو گا۔

افتخار عارف نے شاہدہ احمد نے با رے میں کہا کہ یاد کرنے اور یا د رکھنے میں بڑ افر ق ہو تا ہے۔شاہدہ احمد اچھی ادیبہ تھیں ان سے میری پہلی ملاقات بی بی سی لند ن میں ہوئی تھی وہ بہیت شائستہ خاتون تھیں انہوں نے بڑی فعال زندگی گذاری۔ شا ہدہ احمد نے ڈرا مہ دستک، صدائے کشمیر اور عوام آپ کی عدالت میں بھی لکھے۔ خواتین کے لئے ان کی تحریریں خاص مقام رکھتی ہیں۔

انہوں نے 1992میں بھنور کا چرا غ لکھا وہ ایک مثالی اور رشتوں کو نبھانے والی خاتون تھیں جو ستا ئش سے لا تعلق ر ہا کرتی تھیں۔سینئر صحا فی مجاہد بریلو ی نے فتح یاب علی مرحوم کے ساتھ اپنے گزرے لمحات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ فتح یاب علی خان ایوب خان کی آمریت کے خلاف لڑے جو بڑے حوصلے کا کام تھا ساٹھ کی دہائی میں آمروں کے خلاف جدو جہد میں جن طالب علموں نے شہرت حاصل کی ان میں فتح یاب علی خان کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔

بد قسمتی سے با ئیں بازوں کی داستان رقم نہیں کی گئی جس کے باعث فتح یاب کے بہت سے کارنامے ہم سے پوشیدہ رہ گئے۔ممتاز ادیب اے خیام نے کہا کہ علی حیدر ملک نے جدیدیت پر افسانے لکھے ۔ان کا ناول بے ضمیر بے آسمان ادبی دنیا میں ایک قابل ذکر شاہکار ہے۔انہوں نے تنقیدی مضامین بھی لکھے وہ نئے لکھنے والوں کو خوب پرھنے اور لکھنے کی رائے دیتے تھے ان کا کہنا تھا کہ ادیب کا اعمال نامہ ہی ان کے کام آتا ہے انہوں نے ذہنوں میں زندہ رہنے کے لئے بہت کام کیا ہے۔

باری میاں فرنگی محلی نے جمال میاں فرنگی محلی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فرنگی محل ایک محلہ تھا۔میرے والد قائد اعظم کے ساتھیوں میں سے تھے وہ بجنورکے الیکشن میں بھی قائد اعظم کے ساتھ رہے تھے پھر انہوں نے ڈھاکہ ہجرت کی اور 1971میں کراچی آگئے۔انہیں راجہ صاحب محمود آباد کے اشعار خوب یاد تھے۔افضال احمد سید نے رئیس فروغ کی علمی و ادبی زندگی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریئس فروغ سے میری پہلی ملاقات ان سے ریڈیو پاکستان میں ہوئی تھی بری معصوم شخصیت کے حامل تھے۔ادب کے حوالے سے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

متعلقہ عنوان :