بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مقدمات کی سماعت کے لیے اسلام آباد میں انسانی حقوق کی عدالتیں قائم ہونی چاہیں، میاں رضا ربانی

بیوروکریسی ریاستی اشرفیہ کا حصہ ہے،جہاں سول بیورکریسی ہے وہاں شہری اور دہی،اشرفیہ بھی انسانی حقوق کو سلب کرنے میں حصہ دار ہیں، سیمینار سے خطاب

ہفتہ 12 دسمبر 2015 22:27

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔12 دسمبر۔2015ء) چیئرمین سینٹ آف پاکستان میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مقدمات کی سماعت کے لیے اسلام آباد میں انسانی حقوق کی عدالتیں قائم ہونی چاہیں اور بعد ازاں صوبوں میں بھی اس کا قیام عمل میں لیا جانا چاہیے۔ اسٹیٹس کو توڑے بغیر بنیادی حقو ق کا حصول ناممکن ہے۔

پاکستان کی اکائیوں کو اگر بچانا ہے تواسٹیسٹس کو توڑنا ہو گا ۔بیوروکریسی ریاستی اشرفیہ کا حصہ ہے ۔جہاں سول بیورکریسی ہے۔ وہاں شہری اور دہی،اشرفیہ بھی انسانی حقوق کو سلب کرنے میں حصہ دار ہیں۔ بیوروکریسی سے خواتین ،لیبر، اقلیتیوں اور عام شہریوں کے حقوق دینے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ وہ ہفتہ کو مقامی ہوٹل میں قومی کمیشن برائے وقار نسواں کے زیر اہتمام انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ سیمینار سے بحثیت مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

سیمینار سے انیس ہاروں ،اقلتیتی رکن قومی اسمبلی رمیش کمار ،جسٹس (ر)ماجدہ رضوی ،فضلیہ علیانی ،بیرسٹر ضمیر گھمرو دیگر نے بھی خطاب کیا۔میاں رضا ربانی نے مزید کہا کہ اسٹیٹس کو پر جب بریک لگایا جائے گاتو وفاق بھی مضبوط ہوگا اور لوگوں کو حقوق بھی ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج وہ قوتیں پروان چڑھ رہیں ہیں۔ جنہوں نے اس ملک کوفلاحی اسٹیٹ سے سیکورٹی اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا ہے ۔

ہمیں ان کی نشاندہی کرنی ہو گی جب تک ہم حقیقت کو تسلیم نیہیں کریں گے انسانی حقوق کی پامالی جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آچکا ہے کہ سب کو احتساب کے عمل سے گزرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں رجعت پسندی اور شدت پسندی نے معاشرے کو تقسیم کر دیا ہے ۔ایک ترقی پسند معاشرے کا فلسفہ موجود تھا ۔جسے ختم کردیا گیا ہے ۔آج رجعت پسندی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔

انہوں نے کہا کہ تاریخ کو مد نظر رکھ کر وفاق کو بچایا جاسکتا ہے لیکن یہ راستہ آسان نہیں ہے اس کے لیے جدودہد کرنا ہو گی ۔انہوں نے کہا کہ بیورکریسی سے توقعات نہیں رکھنا چاہیے۔ سول بیوروکریسی اشرافیہ کا حصہ ہے۔ اس میں شہری اور دیہی کی ایلیٹ کلاس موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک میں اقلتیوں کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 9 سے 28تک انسانی حقوق کی گارنٹی دی گئی ہے ۔

رجعت پسندی کی وجہ سے آج اقلیتوں کی حقوق بھی سلب ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ نصاب کو تبدیل کر کے ملک کی تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے، جو نوجون نسل کے لیے اچھا شگن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1947 سے صحت اور تعلیم کا شعبہ صوبوں کا حصہ تھا لیکن وفاق نے اس کو اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عرب کی ثقافت ہماری ثقافت نہیں ہے ہماری ثقافت سندھ ،پنجاب ،بلوچستاناور کے پی کے ہے اسی سے پاکستان کی ثقافت پیدا ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ تمام زبانون کی اہمت ہے اگر آج علاقوں کی زبان کی بات کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ ملک توڑنے کی بات کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک راستے کے علاوہ تمام راستے تباہی کی طرف جا رہے ہیں ۔اگر ہم ایک راستے کو اپنائیں تو پسے ہوئے لوگوں کے دکھ کا مداوں کر سکتے ہیں اور لوگوں کے حقوق کا تحفظ بھی اسی میہں ممکن ہے۔

انیس ہارون نے کہا کہ ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کو اب برا نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کی بہت سے حلقے حمایت کرنے لگے ہیں ،رمیش کمار نے کہا کہ حکومتیں انسانی حقوق کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں ان کو دور کرنے کو تیار نہیں ۔انہوں نے کہا کہ سندھ میں ایک ماہ میں خواتین کے حوالے سے 36 مقد مات داخل کئے گئے ۔انہوں نے کہا کہ کے پی کے میں ہندو اور کرسچن کو کافر کہا جاتا ہے جو قرادار پاکستان کے منافی ہے۔

انہوں کہا کہ ملکی آئین میں لکھا ہوا ہے کہ18 سال سے کم عمر لڑی کی شادی نہیں کی جاسکتی لیکن اس کی کھلے عام پامالی ہو رہی ہے اور ایک مخصوص مائینڈ سیٹ اس کو تحفظ دیتا ہے۔ جسٹس (ر)ماجدہ رضوی نے کہا کہ پولیس کے اعلیٰ افسران انسانی حقوق کے بارے میں عدالت کی جانب سے دئیے گئے احکامات کو نظر انداز کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے عدالتیں اگر چاہیں تو زخود بھی نوٹس لے سکیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے ہم نے یہ سفارش کی تھی کہ تمام جیلوں میں کیمرے لگائے جائیں اور انسانی حقوق کمیشن کو با اختیار بنایا جائے۔ اس سلسلے میں بیوروکریسی کا کردار بڑا متنازہ رہا ہے اور بیوروکریسی نے ہمشہ لوگوں کا گلا دبایا ہے ،فضیلہ علیانی نے کہا کہ شروع سے ہی انسانی حقوق کو سلب کیا گیا اور بد قسمتی سے اس پر توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے مسائل مین اضافہ ہوا۔

انھوں کہا کہ 1970 میں بلوچستان کو صوبائی خودمختاری تو دی گئی لیکن اسلمبلی کو ختم کر کے اختیارات میں ٹمپیرنگ کی گئی ۔انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے حالات آج بھی بہتر نہیں ہیں ہمیں اس بارے میں سوچنا ہوگا انہوں نے کہا کہ بلوچ محب وطن نا ہوتے توکب کے بنگالیوں کی طرح ملک چھوڑ کر چلے جاتے۔ انہوں کہا کہ جمہوری لوگوں کو دہشت گرد کہنا کیا انسانی حقوق کی کھلی خاف ورزی نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری کا تحفظ اسی صورت ہو سکتا ہے جب عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔بیرسٹر ضمیر گھمرو نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل184 میں لکھا ہے کہ اگر بنیادی حقوق سلب کئے جائین گے تو سپریم کورٹ اس پر ایکشن لے سکتی ہے لیکن آج عدالتین خاموش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں دو معاہدے موجود ہیں جس میں پہلا معاہدہ صوبوں اور وفاق کے درمیان ہیں جبکہ دوسرا معاہدہ حکومتوں اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بٹ میں 42 سو ارب روپے وفاق اپنے پاس رکھتا ہے اور 22 سو ارب روپے صوبوں کو دئے جاتے ہیں اس سے کیسے ملک چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ 1947سے ملک میں کمزور الیکشن کمیشن بنتے رہیں ہیں ۔

متعلقہ عنوان :