آرمی پبلک اسکول حادثے میں بچ جانے والے ایک طالبعلم کی دردناک کہانی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 15 دسمبر 2015 18:22

آرمی پبلک اسکول حادثے میں بچ جانے والے ایک طالبعلم کی دردناک کہانی

پشاور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار. 15دسمبر 2015 ء):سانحہ آرمی پبلک اسکول میں بچ جانے والے ایک طالبعلم عاکف عظیم نے اپنی دردناک کہانی بیان کرتے ہوئے بتایا کہ حملہ آور نے مجھ پر سات مرتبہ گولی چلائی ۔ عاکف نے بتایا کہ صبح ساڑھے دس بجے کا وقت تھا اور میں اسکول کے واش روم میں موجود تھا جب میں نے پہلی مرتبہ گولیوں کی آواز سنی ، ہمارے اسکول کے پاس ہی ایک میرج ہال تھا اور مجھے لگا کہ شاید یہ آواز وہاں سے آ رہی ہے۔

لیکن ایک دو منٹ گزرتی ہی فائرنگ کی آواز میں مزید شدت آ گئی ، واش روم سے باہر آتے ہی میں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا جو نیلی شلوار قمیض اور بھورا سویٹر پہنے اور سے پر ٹوپی اوڑھے کھڑا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں 47-AKاور دوسرے ہاتھ میں پستول تھی ۔میں اس سے بچنے کے لیے ایک ستون کی جانب لپکا اور اس نے پشتو میں چلاتے ہوئے مجھے رکنے کا کہا۔

(جاری ہے)

عاکف نے بتایا کہ تین گولیاں ستون میں پیوست ہو گئیں اور تبھی ایک اور حملہ آور نے اسے اپنے ساتھ آڈیٹوریم آنے کے لیے کہا جہاں مزید بچے موجود تھے۔

تب ہی اس حملہ آور نے مزیدچار مرتبہ فائر کیا اور اس کا نشانہ خطا ہو کر آ س پاس کی دیواروں پر جا لگیں۔جس کے بعد میں نے ہمت کی اور پاس موجود ایک کلاس میں چلا گیا جس میں بیس کے قریب طلبا اور ایک ٹیچر موجود تھیں۔ ہم سب شیشوں اور فائرنگ سے بچنے کے لیے کلاس کے درمیان میں کھڑے ہو گئے۔ گیارہ بجے کے قریب فائرنگ کی آواز ایک دم سے تیز ہو گئی۔آڈیٹوریم کے دروازے کھل رہے تھے جس کے بعد میں نے کاریڈور میں دس کے قریب لاشوں کو پڑا دیکھا۔

عاکف نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ میرے لیے وہ لمحہ کسی ڈراﺅنی فلم کا ایک سین تھا۔کسی کا جبڑا کھلا تھا کسی کے منہ میں گولی لگی تھی اور کوئی اپنا بازو تھامے زمین پر پڑا تھا۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ میرا بھائی بھی آڈیٹوریم میں موجود ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں آیا کہ مجھے اب کیا کرنا چاہئیے؟ جیسے ہی حملہ آوروں نے جانا شروع کیا والف اپنی ہی کلاس کی جانب بڑھا ، عاکف کا کہنا ہے کہ اس لمحے میں نے اپنے کیمسٹری لیب کے اسسٹنٹ کو زمین پر پڑا دیکھا، اس کے بعد میں نے جسے مردہ حالت میں پایا وہ میری سب سے اچھی دوست مہر تھی۔

میں نے اس کی لاش کو کھینچا اور واش روم تک لے گیا۔ جس کے بعد میں نے اپنی اردو کی استاد کو زمین پر پایا جنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں ٹھیک ہوں میں جوابا کہا کہ جی میں ٹھیک ہوں اوریہ آخری بار تھا کہ میں نے انہیں بولتے دیکھا۔ جب میں اپنی کلاس میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہاں کوئی موجود نہیں تھا جس پر میں نے سوچا کہ شاید میرے تمام دوست بچ کر نکل گئے ہیں۔

لیکن شام کو مجھے پتہ چلا کہ میرے دوستوں کے ساتھ کیا ہوا تھا،۔ میں واپس کلاس 7 بی میں گیا، جہاں میں نے دوبارہ گولیوں کی آوازیں سنیں۔پھر ایک دم سناٹا چھا گیا ۔ عاکف نے بتایا کہ جب ہم نے کلاس کا دروازہ کھولا تو ایک بچے کو دروازے سے اپنے ہی سویٹر سے لٹکتا ہوا پایا اور اس کے آخری الفاظ مجھے آج بھی یاد ہیں ، اس نے کہا تھا ’ کاش! مجھے بھی کوئی بچا لیتا‘۔

اسے تین مرتبہ گولی ماری گئی تھی جبکہ اس کی ٹھوڑی سے خون رس رہا تھا اس کے بچنے کے امکانات بہت کم تھے لیکن پھربھی میں نے اپنی شرٹ سے اس کا خون روکنے کی کوشش کی۔ عاکف نے بتایا کہ جلد ہی پاک آرمی کے جوانوں نے ہمیں بچا لیا اور اگلے دن اسپتال کی جانب سے شہدا کی فہرست میں میں نے دیکھا کہ 13نمبر سے40ویں نمبر تک میرے ہی ہم جماعتوں کے نام تھے۔ تب مجھے پتہ چلا کہ میرے چار قریبی دوست بھی شہپید ہو گئے ہیں جس کے بعد مجھے کوئی ہوش نہ رہی۔ عاکف کا کہنا تھا کہا س واقعہ کے بعدمیں پہلے جیسا نہیں رہا.عاکف کی کہانی کا یہ پہلا حصہ تھا ۔۔۔۔جلد ہی عاکف کی کہانی کا اگلا حصہ بھی شائع کیا جائے گا.