سانحہ مشرقی پاکستان اورسانحہ قصبہ علیگڑھ کی تحقیقات کرواکر ذمہ داران کو قوم کے سامنے لایا جائے،مقررین

حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی نے پاکستان کو بڑے بڑے سانحات سے دوچار کیا ہے ، کنور نوید جمیل

بدھ 16 دسمبر 2015 23:00

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔16 دسمبر۔2015ء) متحدہ قومی موومنٹ کے تحت سانحہ قصبہ علیگڑھ، سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور اور سانحہ مشرقی پاکستان کے شہداء کی برسی کا اجتماع لال قلعہ گراؤنڈ عزیزآباد میں منعقد ہوا۔اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے مطالبہ کیا کہ سانحہ مشرقی پاکستان اورسانحہ قصبہ علیگڑھ کی بھی تحقیقات کرائی جائیں اور ان سانحات کے ذمہ داران کو قوم کے سامنے لایا جائے۔

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے رکن رابطہ کمیٹی کنور نوید جمیل نے کہاکہ آج کا اجتماع سانحہ قصبہ علیگڑھ ، سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور اور سانحہ مشرقی پاکستان کے شہداء کے ایصال ثواب اور ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے منعقد کیاگیا ہے،ہمارے ملک نے آج تک جن سانحا ت کا سامنا کرنا پڑاہے وہ اس وقت کے حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ تاریخ سانحہ مشرقی پاکستان کے حقائق اور مشرقی پاکستان کے عوا م کے ساتھ ناانصافیوں کی تفصیل سے بھری پڑی ہے لیکن حکمرانوں کی جانب سے آج تک اس سانحہ کی تحقیقات کیلئے بننے والی حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ باقاعدہ طور سے قوم کے سامنے نہیں لائی گئی۔

مرکزی رہنما سید حیدر عباس رضو ی نے کہاکہ پاکستان نے دسمبر میں بہت افسوسنا ک سانحات کا سامنا کیا ہے ، 1971ء میں سقوط ڈھاکہ ہو ، سانحہ قصبہ علیگڑھ ہویا سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور ہو یہ انتہائی افسوسنا ک سانحات ہیں،سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پاکستان کی پوری تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے جس اس وقت کے حکمرانوں کی غلطیوں اور مغروریت کا نتیجہ تھا ۔

انہوں نے کہا کہ بنگال کے عوام نے 1757ء میں تحریک آزادی ہند کی بنیاد رکھی اور تحریک پاکستان میں بڑی قربانیاں دی ہیں جبکہ1940ء میں قرداد پاکستا ن پیش کرنیوالے تحریک پاکستان کے رہنما مولوی فضل الحق کا تعلق بھی ہندوستان کے صوبہ بنگال سے تھا۔انہوں نے کہاکہ آزادی کے بعد مشرقی پاکستان کے عوام کی تعداد مغربی پاکستان سے زیادہ تھی لیکن ان کے ساتھ نا انصافیاں کی گئیں اور تاریخ میں پہلی مرتبہ اقلیت نے اکثریت کی زیادتیوں سے تنگ آکر علیحدگی کامطالبہ اُٹھا اور ملک د ولخت ہوگیا لیکن آج تک اس سانحے کے ذمہ داروں کو منظر عام پر نہیں لایاگیا۔

انہوں نے کہاکہ بنگلہ دیش میں محصورین پاکستان ریڈ کراس کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں ،افسوسناک بات ہے کہ پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکیوں کو قبول کرلیا جاتاہے لیکن1971ء میں پاکستان کے دفاع کیلئے پاکستان فوج کا ساتھ دینے والے محصورین پاکستان کو وطن واپس لانے کیلئے کوئی بات نہیں کرتا ،آجاس اجتماع کے توسط سے حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حصورین پاکستان کو وطن واپس لانے کیلئے اقدامات کرے۔

رکن رابطہ کمیٹی کمال ملک نے کہاکہ ایم کیوا یم کی جدوجہد کے آغاز سے باطل پرستوں نے متعدد مرتبہ ہمارے لوگوں پر شب خون مارا لیکن ہم آج بھی ثابت قدم ہیں،1971ء میں مشرقی پاکستان میں بسنے والے مہاجروں نے پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا تھا لیکن وہ آج بھی بنگلہ دیش کے ریڈ کراس کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور انہیں کو پوچھتانہیں ہے،ہم حکو مت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیش کے ریڈ کراس کیمپوں میں موجود پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔

رکن رابطہ کمیٹی محترمہ ریحانہ نسرین نے کہا کہ جناب الطاف حسین کی تصاویر اور تقاریر پر پابندی اس لئے عائد کی گئی ہے کیوں کہ وہ واحد رہنما ہیں جو ملک میں غریبوں ،مظلوموں کے حقوق کے حصول کی بات کرتے ہیں ، جناب الطاف حسین نے غریب متوسط طبقے کے اہل و تعلیم یافتہ افراد کو ملک کے اعلیٰ ایوانوں میں بھیجا ہے جس کی بدولت ملک کی ہر زبان بولنے والے مظلوم نے ایم کیوا یم کا ساتھ دیا ہے۔

رکن رابطہ کمیٹی عادل خان نے کہاکہ آج 16دسمبر کا دن حق پرستی کی تحریک میں شہید ہونیوالوں کو یاد کرنے کا دن ہے اور ہم اپنے شہداء کو سلام تحسین پیش کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہر دور میں حق پرستوں اور باطل پرستوں میں جنگ جاری رہی ہے لیکن باطل کا ساتھ دینے والے کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔انہوں نے کہاکہ مائنس الطا ف حسین کا فارمولہ عوام نے ایک مرتبہ پھر مسترد کردیاہے اور یہ واضح کردیا کہ صرف اور صرف جناب الطاف حسین کا فلسفہ پاکستان کی بقاء و سالمیت کا ضامن ہے۔

رکن رابطہ کمیٹی زاہد منصوری نے کہاکہ جناب الطاف حسین نے جامعہ کراچی سے جو سفر شروع کیا تھا وہ سر سید احمد خان ، مولانا محمد علی جوہر کے سفر کا تسلسل تھا جس سے خوفزدہ ہوکر باطل قوتوں نے انکی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں لیکن جناب الطاف حسین اور انکے چاہنے والوں نے حق پرستی کے سفر کو رکنے نہیں دیا۔انہوں نے کہا کہ ماضی کے انتخابات میں بھی سندھ کے شہر ی علاقوں کے عوام نے جناب الطاف حسین سے اپنی والہانہ محبت کا ثبوت دیا تھا۔

رکن رابطہ کمیٹی اسلم خان آفریدی نے کہاکہ الطاف حسین نے غریب و متوسط طبقے کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کیلئے انکے درمیان سے لوگوں کو منتخب کرکے ملک کے اعلیٰ ایوانوں میں بھیجا ہے جس کے سبب آج جناب الطاف حسین کا نظریہ ملک کے کونے کونے میں پہنچ چکاہے ،جناب الطا ف حسین کا نظریہ ملک گیر ہے اور منتخب نمائندے انکے نظریے پر چل کر عوامی مسائل حل کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ جناب الطاف حسین نے سب سے پہلے طالبان ، القاعدہ ، داعش اور دیگر مذہبی جنونیوں کے خلاف آواز بلندکی تھی لیکن کسی نے انکی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جس کا خمیازہ آج پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہاہے۔کراچی کے نامزد ڈپٹی مئیر ڈاکٹر ارشد وہرہ نے کہاکہ5دسمبر کو ایم کیوا یم نے بلدیاتی انتخابات میں فقید المثال کامیابی حاصل کی ہے لیکن موجودہ بلدیاتی نظام اس شہر کے مئیر اور دیگر نمائندگان کو اختیارنہیں دیتا اور اختیار کے بغیر عوام کی بھر پور خدمت ممکن نہیں۔انہوں نے کہاکہ ہمارے پاس وسائل اور اختیارات کا فقدان ہے لیکن عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے لیکن منتخب نمائندوں کے ساتھ ساتھ کراچی کا ہر شہری اس شہر کی ترقی کا ذمہ دار ہے۔

متعلقہ عنوان :