کوئی ثبوت نہیں کہ حملہ آور کسی منظم جہادی گروپ کا حصہ تھے، کیلیفورنیا میں 14 افراد کے قتل کے مجرم جوڑے نے

سماجی رابطوں کی ،ویب سائٹس پر کھلے عام جہاد کی حمایت کا اظہار نہیں کیا تھا‘ایف بی آئی

Umer Jamshaid عمر جمشید جمعرات 17 دسمبر 2015 15:34

کوئی ثبوت نہیں کہ حملہ آور کسی منظم جہادی گروپ کا حصہ تھے، کیلیفورنیا ..

نیویارک(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔17 دسمبر۔2015ء) امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے کہا ہے کہ کیلیفورنیا میں 14 افراد کے قتل کے مجرم جوڑے نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کھلے عام جہاد کی حمایت کا اظہار نہیں کیا تھا۔ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی نے اس سلسلے میں ماضی میں سامنے آنے والی خبروں کو مسترد کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ رضوان فاروق اور ان کی اہلیہ تاشفین ملک نے کھلے عام نہیں بلکہ براہ راست نجی پیغاموں کے ذریعے شہادت کی حمایت کا اظہار کیا تھا۔

تاشفین نے رضوان فاروق کے ہمراہ سان برنارڈینو کے علاقے میں ایک تقریب کے دوران فائرنگ کر کے 14 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔یہ دونوں حملے کے کچھ گھنٹے بعد پولیس سے فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے تھے۔

(جاری ہے)

نیویارک میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے جیمز کومی نے یہ بھی کہا کہ اس بات کا اب تک کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے کہ حملہ آور کسی منظم جہادی گروپ کا حصہ تھے۔

تاہم انھوں نے بتایا کہ تاشفین کی امریکہ آمد سے قبل وہ اور رضوان جہاد کی حمایت کا اظہار کر چکے تھے۔جیمز کومی نے یہ بھی کہا کہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے جنگجو سوشل میڈیا کے استعمال سے لوگوں کو حملے کرنے کے لیے متاثر کر رہے ہیں جس کی وجہ سے سکیورٹی تنظیمیں ایک نئے قسم کے چیلنج کا سامنا کر رہی ہیں۔حال ہی میں امریکی سکیورٹی اہلکاروں پر تنقید کی گئی تھی کہ انھوں نے حملہ آور تاشفین ملک کے سوشل میڈیا اکاوٴنٹ کا جائزہ لیے بغیر انھیں 2014 میں امریکہ میں داخل ہونے دیا تھا۔

تاشفین ملک منگیتر کے ویزے کے ذریعے سعودی عرب سے امریکہ آئی تھیں۔نیویارک سے امریکی سینیٹ کے رکن چک شومر نے کہا ہے اگر سکیورٹی اہلکاروں نے تاشفین ملک کے بارے میں چھان بین کی ہوتی تو شاید آج سان برنارڈینو میں وہ لوگ بھی زندہ ہوتے۔اس واقعے کے بعد ملک بھر میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ لوگوں کے پس منظر کا جائزہ لینے کے سلسلے میں سکیورٹی اہلکار کس قسم کی حدود کا سامنا کرتے ہیں اور ان سے کیسے نمٹا جائے۔