ہمارا مقصد پولیس ،شہریوں کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے کیساتھ جرائم کی روک تھام کرنا ہے ،چیف سی پی ایل سی

سی پی ایل سی کے تحت کراچی میں 6دفاتر ،حیدرآباد میں 1دفتر کام کر رہا ہے،سکھر میں بھی جلد کام شروع ہوگا ،زبیر حبیب کی میڈیا سے گفتگو

جمعرات 17 دسمبر 2015 18:18

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔17 دسمبر۔2015ء) سی پی ایل سی کے نئے چیف زبیر حبیب نے کہا ہے کہ ہمارا مقصد پولیس اور شہریوں کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے کے ساتھ جرائم کی روک تھام کے اقدامات کو بروئے کار لانا ہے تاکہ عوام کو جلد از جلد انصاف کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔ سی پی ایل سی کے تحت کراچی میں 6دفاتر جبکہ حیدرآباد میں 1دفتر کام کر رہا ہے۔

آئندہ دنوں میں سکھر میں بھی کام کا آغاز کر دیا جائے گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو بحیثیت چیف سی پی ایل سی چارج سنبھالنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔زبیر حبیب نے کہا کہ سی پی ایل سی نے ابتدائی دنوں میں 4تھانوں کی حدود میں کام شروع کیا گیا تھا جبکہ آئندہ برسوں میں اس کام کو اندرون سندھ سمیت ملک بھر میں پھیلایا جائے گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سی پی ایل سی نے اب تک 1330سے زائد اغواء برائے تاوان کے کیسز حل کیے اور اغواء برائے تاوان کی زد میں آنے والے خاندانوں کی اس معاشرے میں بحالی میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کیا اور ان کے راز کو افشا نہ کیاگیا۔ اس سلسلے میں اغواء برائے تاوان کی رقم بھی ملزمان کو سی پی ایل سی کے پلیٹ فارم سے ادا کی گئی تاکہ ملزمان کے گرد گھیرا تنگ کر کے انہیں منطقی انجان تک پہنچایا جا سکے۔

سی پی ایل سی نے اہنی کاوشوں کی ذریعے گزشتہ سالوں کی نسبت گاڑیوں کی چھیننے اور چوری کی وارداتوں پر کو کنٹرول کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ رواں سال ان وارداتوں میں 50فیصد سے زائد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ 2014میں اغواء برائے تاوان کے110کیس جبکہ رواں سال 21کیس رونما ہوئے ہیں۔رواں سال میں ٹارگٹ کلنگ پر بھی قابو پایا گیا ہے۔2013میں 21ہزار،2014میں15ہزار42اور جبکہ رواں سال میں 17ہزار5سو کلنگ کے واقعات رونما ہوئے جن میں 618ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سی پی ایل سی کے تحت اس بات کا بھی تجزیہ کیا جاتا ہے کہ چوری کی وارداتیں کس علاقے میں زیادہ ہیں اور ان کی نوعیت کس طرح کی ہے تاکہ جرائم پیشہ گروہوں کے بارے میں معلومات کا اندازہ لگایا جاسکے اور چوری کی وارداتیں کن اوقات اور کن کن مقامات پر واقع ہوتی ہیں اور ان کا طریقہ واردات کیا ہوتا ہے۔ ان معلومات سے ملزمان کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں مدد ملتی ہے۔

حالیہ دنوں میں سب سے بڑا مسئلہ اسٹریٹ کرائم کا ہے جس میں موبائل فون اور دیگر اشیاء کی راہ زنی شامل ہے۔ 2014میں 29ہزار موبائل فونز جبکہ رواں سال32ہزار موبائل فونز چوری یا چھینے گئے ہیں۔ موبائل فون اسنیچنگ کے ڈیٹا کو مرتب کرنے کا سب سے بڑا نیٹ ورک سی پی ایل سی کے پاس ہے۔انہوں نے کہا کہ موبائل فون اسنیچنگ کے ڈیٹا کو مرتب کرنے کا سب سے بڑا نیٹ ورک سی پی ایل سی کے پاس ہے۔

شہریوں کی شکایات سننے کے لیے 60سے زیادہ افراد بیک وقت 24گھنٹے ہیلپ لائن پر موجود ہوتے ہیں تاکہ شہریوں کے فون کاڈیٹا مرتب کیا جا سکے۔روزانہ کی بنیاد پر 3ہزار2سوسے زائد کالز موصول ہوتی ہیں جبکہ 8ہزار فونز کالز سننے کا نظام موجود ہے۔ چھینے گئے فون کی فروخت کے وقت یہ ڈیٹا ملزمان کی گرفتاری میں مدد دیتا ہے۔سی پی ایل سی میں اب تک 9لاکھ سے زائد شکایات درج ہیں جن میں سے 40ہزار فونز کی ریکوری کی گئی ہے۔

1987سے اب تک 8لاکھ50ہزارایف آئی آر کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کیا جا چکا ہے جبکہ سینٹرل جیل میں قیدیوں کا ریکارڈ بھی بائیو میٹرک طرز پر کیا جا رہا ہے تاکہ قیدیوں کا مختلف ناموں سے سزاؤں کا ریکارڈ بھی مرتب کیا جا سکے۔ اب تک3لاکھ33ہزارقیدیوں کا رکارڈ بائیو میٹرک کیا جا چکا ہے جبکہ دیگر صوبوں کی جیلوں میں بھی قید ملزمان کا ریکارڈ بائیو میٹرک نظام کے تحت مرتب کیا جائے گا۔

سی پی ایل سی نے جدید طرز کے بائیو میٹرک نظام کے تحت 3سو جرائم پیشہ گینگز کا خاتمہ ممکن بنایا ہے جس میں ملزما ن کوسزائیں بھی دی گئی ہیں۔ 3563سے زائد بھتہ خوری کے کیسز حل کیے گئے ہیں ،اغواء برائے تاوان کے 1332کیسز میں 99فیصدکیسز میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کمپیوٹرائز کیچنگ کی مہارت میں سی پی ایل سی کو بے شمار کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں جس کے تحت ملزمان کے خاکے بنا کر اصل ملزمان کی شناخت اور گرفتاریاں ممکن ہو سکی ہیں۔

متعلقہ عنوان :