گلشن اقبال میں 5 منزلہ عمارت کی تباہی اداروں میں کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہے، سٹیزن لیگل ایڈ و کمپلین سیل

ہفتہ 19 دسمبر 2015 21:31

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔19 دسمبر۔2015ء) گلشن اقبال بلاک 10، سینٹرل کو آپریٹیو سوسائٹی میں ایک سال قبل تیار ہونے والی 5 منزلہ عمارت کی تباہی متعلقہ اداروں میں کرپشن، ناقص کارکردگی اور نااہلی کی کا منہ بولتا ثبوت ہے، بات این جی اوز رابطہ کونسل اور سٹیزن لیگل ایڈ و کمپلین سیل کے صدر فہیم صدیقی ایڈووکیٹ، راحت بیگ ایڈووکیٹ اور محمد اعظم علی ایڈووکیٹ نے اپنے مشترکہ بیان میں کہی، انہوں نے کہا کہ گلشن اقبال بلاک 10، سینٹرل کو آپریٹیو سوسائٹی میں 96 گز کے ایک مکان پر (فلیٹ سائٹ) غیرقانونی اور ناقص مٹیریل سے تیار کی گئی، 5 منزلہ عمارت اچانک زمین میں دھسنے لگی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی، جس کے بعد کمشنر کراچی نے نوٹس لیتے ہوئے بلڈنگ سے رہائشیوں کو باحفاظت نکالنے کا حکم جاری کیا، بعد ازاں زمین بوس ہوتی اس عمارت کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کینٹونمنٹ بورڈ نے عملے نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے اسے ڈیمالیش کردیا، یاد رہے کہ اس عمارت کو مظفر نامی بلڈر نے بنایا تھا جوکہ روپوش ہوگیا ہے، بلڈر مافیا ایسی تمام عمارتیں جوکہ نقشہ کے برخلاف یا خلاف ضابطہ تعمیر کرتے ہیں وہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کینٹونمنٹ بورڈز کے شعبہ بلڈنگ کنٹرول کے افسران کی ملی بھگت سے تیار کرکے علاقے کی اسٹیٹ ایجنسیوں کے ذریعے فروخت کرتے ہیں اور عوام کے خون پسینے کی کمائی لوٹ لیتے ہیں، سادہ لوح عوام بلڈر مافیا کے ہاتھوں اب تک اربوں روپے ڈبو چکے ہیں اور کراچی میں سینکٹروں پروجیکٹس تعمیرات کے مراحل میں ہیں، لیکن متعلقہ ادارے مبینہ طور پر بھاری رشوت کے عیوض اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں، گزشتہ دنوں مون آرکیڈ کے بھی سینکٹروں الاٹیز کے کروڑوں روپے ڈوب چکے ہیں، لیکن سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سندھ کے فیصلوں نے انہیں در بدر ہونے سے بچالیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کینٹونمنٹ بورڈز کے شعبہ بلڈنگ کنٹرول میں صحافیوں اور این جی اوز کے نمائندوں تک کا داخلہ غیر قانونی طور پر کئی سالوں سے بند ہے، تاکہ کوئی ان سے باز پرس نہ کرسکے، جبکہ متعلقہ اداروں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں سینکٹروں مقدمات زیر سماعت ہیں اور محکمہ انٹی کرپشن اور نیب سندھ میں بھی متعدد انکوائریاں چل رہی ہیں، لیکن متعلقہ اداروں کے کرپٹ افسران اتنے بااثر ہیں کہ وہ کسی بھی احتسابی ادارے کو جوابدہ نہیں سمجھتے ہیں۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمارتوں کے زمین بوس ہونے کے مزید واقعات رونما ہوسکتے ہیں جس طرح ماضی میں کئی کئی منزلہ عمارتیں زمین بوس ہوئیں اور سینکڑوں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ، جس کی اہم وجوہات میں ناقص مٹیریل کا استعمال ہے، ایسے پروجیکٹس کے خلاف عدالتی احکامات آنے کی بھی توقع ہے جوکہ غیرقانونی اور خلاف ضابطہ تعمیر کی گئی ہیں۔

آخر میں فہیم صدیقی ایڈووکیٹ نے وزیر اعظم پاکستان، چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان، چیف آف آرمی اسٹاف، چیئرمین نیب، وزیر اعلیٰ سندھ، گورنر سندھ، کور کمانڈر سندھ، ڈائریکٹر جنرل نیب سندھ، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کینٹونمنٹ بورڈز کے شعبہ بلڈنگ کنٹرول کے حوالے سے فوری طور پر نیب سندھ، سندھ رینجرز اور ججز پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جائے اور ایسی تمام عمارتوں کا سروے کیا جائے جوکہ ناقص مٹیریل سے تعمیر کی گئیں یا پھر خلاف ضابطہ اور خلاف قانون تعمیر کی گئی ہیں، اگر ایسا نہ کیا گیا تو اربوں روپے کا نقصان اور سینکڑوں انسانی جانیں ضائع ہونے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہے گا۔

متعلقہ عنوان :