چین میں جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ دوسرے طیارہ بردار بحری بیڑے کی تیاری

بحری بیڑے پر جے 15فائٹر طیارے اتر سکیں اور پرواز کر سکیں گے،ترجمان چینی وزارت دفاع کی پریس کانفرنس

جمعرات 31 دسمبر 2015 18:15

چین میں جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ دوسرے طیارہ بردار بحری بیڑے کی تیاری

بیجنگ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔31 دسمبر۔2015ء) کئی ماہ سے جاری قیاس آرائیوں کے بعد چین نے اپنی تاریخ کا دوسرا بڑا طیارہ بردار بحری بیڑا بنانے کی تصدیق کر دی ہے۔ اس کا مقصد عالمی طاقتوں اور خاص طور پر امریکا کے مقابلے میں چینی سمندری طاقت میں اضافہ کرنا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق چین کی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل ینگ یوجن نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ وہ اپنا دوسرا طیارہ بردار بحری بیڑا تعمیر کر رہا ہے مگر اس مرتبہ یہ مکمل طور پر ملکی ٹیکنالوجی سے تیار کیا جا رہا ہے۔

چینی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل ینگ یْوجْن نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ پچاس ہزار ٹن وزنی یہ بحری جہاز ملک کی شمالی پورٹ ڈالیان پر تعمیر کیا جا رہا ہے اور اس بیڑے کو چین میں ہی ڈیزائن کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

چین کے پاس پہلے بھی ایک طیارہ بردار بحری بیڑا موجود ہے جسے1998 میں یوکرائن سے خرید کر کے چین کے اندر ہی جدید بنایا گیا تھا۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزارت دفاع کے ترجمان کا کہنا تھاکہ چین کے ساحل طویل ہیں اور وسیع سمندری علاقے ہمارے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

اپنی سمندری خودمختاری، مفادات اور ملکی حقوق کی حفاظت چین کی مسلح افواج کی ذمہ داری ہے۔اس نئے بحری بیڑے کا ڈیزائن پہلے بحری بیڑے کو بناتے وقت حاصل ہونے والے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ چینی حکام کے مطابق اس بحری بیڑے پر جے فیفٹین فائٹر طیارے اتر سکیں اور پرواز کر سکیں گے۔ چینی کے ’طیارہ بردار بحری بیڑوں کے پروگرام‘ کے بارے میں بہت ہی کم معلومات منظر عام پر آ سکی ہیں کیوں کہ چین ان معلومات کو ملکی راز قرار دیتا ہے۔

چینی حکام کی طرف سے یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ یہ بیڑے کو کب باقاعدہ طور پر چینی بحریہ کے حوالے کیا جائے گا۔شنگھائی میں بحری امور کے ایک ماہر کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’امریکا کے پاس ایسے متعدد بحری بیڑے ہیں، جو بحیرہ جنوبی چین میں ہر طرف نقل و حرکت جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ ہمارے لیے ایک مسئلہ ہے۔ اس دوسرے بحری بیڑے سے ہم پر دباؤ کم ہو گا۔

امریکا کے علاوہ اس وقت کئی ایشیائی ریاستوں کی نظریں بھی صرف چین پر لگی ہیں، جو مشرقی ایشیا کے ساحلوں کے ساتھ ساتھ وسیع تر علاقے پر اپنی ملکیت کے دعوے کر رہا ہے۔ دوسری جانب کئی ایشیائی ممالک بھی اپنے دفاع پر اس لیے بہت زیادہ رقوم خرچ کرنے لگے ہیں کہ ان کے چین کے ساتھ مختلف جزیروں اور سمندری علاقوں کی ملکیت کے کثیرالجہتی تنازعے پائے جاتے ہیں۔ چین سے اختلافات رکھنے والے متعدد ممالک نے امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدے کر رکھے ہیں۔

متعلقہ عنوان :