شہریار خان کی جانب سے مبینہ طور پر ذاتی مقاصد کیلئے عہدے کے استعمال کا انکشاف

شہر یار خان نے اپنے بیٹے کے کیو سینٹر کوگرانے پر سی ڈی اے کے چیئر مین کو احتجاجی خط کیلئے پی سی بی کا لیٹر ہیڈاستعمال کیا ذاتی مقاصد کیلئے عہدے کا استعمال کرنا انتہائی مایوس کن ہے سابق چیئر مین پی سی بی خالد محمود خط لکھنے کا مقصد ریستوران کو دوبارہ فعال ہونے کی اجازت لینی تھی منیجر عمر علی ریستوران کی تصدیق پاک بھارت سیریز اور پاکستان سپر لیگ کے معاملات بورڈ میں کرپشن اور بد انتظامی چھپانے کے طریقے ہیں محسن خان

اتوار 3 جنوری 2016 13:22

شہریار خان کی جانب سے مبینہ طور پر ذاتی مقاصد کیلئے عہدے کے استعمال ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔03 جنوری۔2016ء) پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ شہریار خان کی جانب سے مبینہ طور پر ذاتی مقاصد کیلئے عہدے کے استعمال کا انکشاف ہوا ہے -نجی ٹی وی کے مطابق، شہریار خان نے اسلام آباد میں واقع اپنے بیٹے عمر علی خان کے کیوسک سینٹر کو گرانے پر کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ معروف افضل کو جو احتجاجی خط لکھا، اس کیلئے پی سی بی کا لیٹر ہیڈ اور مہر استعمال ہوئی دستاویزات کے مطابق پی سی بی سربراہ نے مبینہ طور پر ذاتی مقاصد کیلئے اپنے عہدے کا استعمال کیا۔

پی سی بی کے چیئر مین شہریار کے اس اقدام نے کرکٹ بورڈ میں معاملات کی شفافیت پر سوالات کھڑے کر دیئے پی سی بی کے سابق چیئرمین خالد محمود کے مطابق، ماضی میں کسی چیئرمین نے اپنے عہدے کے ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا ذاتی مقاصد کیلئے عہدے کا استعمال کرنا انتہائی مایوس کن ہے۔

(جاری ہے)

عمر علی کے ریستوران کے مینیجر نے سی ڈی اے کو خط لکھے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس شواہد موجود ہیں کہ یہ ریستوراں اتھارٹی کی اجازت سے بنایا گیا۔

خط لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ریستوران کو دوبارہ فعال ہونے کی اجازت دی جائے۔سابق کرکٹر محسن خان نے واقعہ پر انتہائی حیرانی اور مایوسی ظاہر کرتے ہوئے پاک بھارت سیریز پر شہریار کے بیانات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔پاک بھارت سیریز اور اب پاکستان سپر لیگ کے معاملات بورڈ میں کرپشن اور بد انتظامی چھپانے کے طریقے ہیں۔سابق ٹیسٹ کپتان سرفراز نواز نے خط کو اختیارات کا غلط استعمال قرار دیتے ہوئے محمد عامر کو ٹیم میں شامل کرنے پر بھی سوال اٹھایا۔پی سی بی ترجمان امجد بھٹی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ خط چیئرمین کا ذاتی معاملہ ہے لہذا اسے زیر بحث نہیں لایا جانا چاہیے۔