کالج کی ٹیم میں وسیم اکرم کا سامنا کر نے والا میں پہلا باز تھا علیم ڈار

کرکٹر بننا مشکل تھا امپائرنگ کے شعبے سے وابستہ ہوا تو پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا میرے کیریئر کا نقطہ عروج 2003 کا ورلڈ کپ تھا بہترین ایوارڈ حاصل کر نے والی خوشیاں بڑی مشکل سے ملتی ہیں ہر میچ کو اپنے میچ کے طور پر لیتا ہوں اپنے پیشہ سے دیانت نہ کر نے والا شخص کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا انٹرویو

اتوار 3 جنوری 2016 13:25

کالج کی ٹیم میں وسیم اکرم کا سامنا کر نے والا میں پہلا باز تھا  علیم ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔03 جنوری۔2016ء) پاکستان کے عظیم امپائر علیم ڈار نے کہا ہے کہ کالج کی ٹیم میں وسیم اکرم کا سامنا کر نے والا میں پہلا باز تھا کرکٹر بننا مشکل تھا امپائرنگ کے شعبے سے وابستہ ہوا تو پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا میرے کیریئر کا نقطہ عروج 2003 کا ورلڈ کپ تھا بہترین ایوارڈ حاصل کر نے والی خوشیاں بڑی مشکل سے ملتی ہیں ہر میچ کو اپنے میچ کے طور پر لیتا ہوں اپنے پیشہ سے دیانت نہ کر نے والا شخص کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔

تفصیلات کے مطابق علیم ڈار اور وسیم اکرم دونوں لاہور کے سول لائنز میں واقع گورنمنٹ اسلامیہ کالج میں پڑھتے تھے۔ ایک انٹرویو میں علیم ڈار نے بتایا کہ میں گجرانوالہ سے پڑھنے کیلئے اسلامیہ کالج میں داخلہ حاصل کرکے لاہور آیا تھا اور وہاں سے کھیلتا تھا وسیم اکرم پہلے کھلاڑی تھے جنھیں باوٴلنگ کیلئے سب سے پہلے منتخب کیا گیا اور میں بلے بازی کیلئے منتخب کئے جانے والوں میں پہلا کھلاڑی تھا۔

(جاری ہے)

ایک ہی جگہ سے کیرئر کا آغاز کرنے والے علیم کووسیم اکرم کی طرح کامیاب کیرئر بنانے کی خواہش تھی تاہم جب انھیں احساس ہوا کہ پاکستان کی سطح تک پہنچنے کیلئے بہت مشکلات ہیں تو انھیں اپنے محبوب فرسٹ کلاس کیرئر کو خیرباد کہنا پڑا۔علیم ڈار نے کہا کہ میں ایک کرکٹر بننا چاہتا تھا اور میں نے بہت محنت کی کہ ایک کرکٹر بنوں۔میں نے بہت کم فرسٹ کلاس اور گریڈ دو سطح کرکٹ بھی کم کھیلی لیکن تب مجھے احساس ہوا کہ میرے لیے کرکٹر بننا مشکل ہے اس دھچکے نے علیم ڈار کو اپنے بچپن کے خواب سے محروم کردیا لیکن انھوں نے دوسرا خواب سجا لیا لیکن یہ خواب کچھ مختلف تھا جب انھوں نے امپائرنگ کو پیشے کے طورپر منتخب کرلیا۔

انہوں نے کہاکہ میں نے گجرانوالہ سے نکلتے وقت اپنے والدین سے وعدہ کیا تھا کہ میں بڑا آدمی بنوں گا اور مجھے یہ وعدہ پوراکرنا تھا۔جب پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) کی بھاگ ڈور ماجد خان کے پاس تھی اور خالد محمود اس وقت بورڈ کے صدر تھے اس وقت پی سی بی کی جانب سے فرسٹ کلاس کرکٹرز کو پیشہ ورانہ امپائرنگ میں موقع دینے کا اعلان کیا گیا۔علیم ڈار نے کہا کہ یہ اچھا موقع تھا اظہر زیدی نے مجھے یہ کہتے ہوئے نصیحت کی کہ یہ اچھا موقع ہے اور میں اس سے کچھ حاصل کرسکتا ہوں اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور خوش قسمتی تھی کہ انھیں امپائرنگ کے پیشے میں ترقی کے لیے بھرپور مواقع نصیب ہوئے۔

علیم ڈار کو فرسٹ کلاس، گریڈ ٹو اور انڈر 19 کے محض ایک سال کے تجربے کے بعد بین الاقوامی سطح پر امپائرنگ کا موقع مل گیا۔علیم ڈارنے کہاکہ میں نے آغاز اپنے کلب سے کیا جہاں عمران نذیر عبدالرزاق اور دیگر کھلاڑی اس وقت کھیلتے تھے میرے خیال میں میں خوش قسمت امپائر ہوں جنھیں فرسٹ کلاس گریڈ ٹو اور انڈر 19 کے میچوں میں صرف ایک سال کے تجربے کے بعد 2000 میں بین الاقومی سطح پرامپائرنگ موقع مل گیایہاں تک کہ ایک ٹیسٹ کرکٹر کے لیے طریقہ کار کو مکمل کرنے کے لیے 5 سے 6 سال درکار ہوتے ہیں جس کے بعد وہ بین الاقوامی میچ میں کھیل سکتا ہے اور یہ سب ایسے شروع ہوا۔

علیم ڈا ر نے کہاکہ میرے کیریئر کا نقطہ عروج 2003 کا ورلڈ کپ تھا۔آئی سی سی نے صرف 12 ماہ کے تجربے کے باوجود میری کارکردگی کو سراہا اور میں ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک وہی ٹھہرا اور چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ڈار نے کہاکہ یہ میرے لیے بڑی کامیابی تھی۔ورلڈ کپ 2003 میں علیم کی بہترین کارکردگی نے انھیں ٹیسٹ کرکٹ میں امپائرنگ کا قابل بنا دیا اور اکتوبر2003 میں انگلینڈ اور بنگلہ دیش کے درمیان مقابلہ ان کا پہلا ٹیسٹ میچ ثابت ہوا۔

میچ کے بعد علیم ڈارایلیٹ پینل میں شامل ہوگئے اور جب سے اپنی نیک نامی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔علیم ڈار نے کہا کہ ایک امپائر کی حیثیت سے اعلیٰ معیار کی فٹنس اور اعلیٰ درجے کی توجہ درکار ہوتی ہے اور آئی سی سی مستقبل کے کام کے پیش نظر امپائرز کی فٹنس جانچنے کے لیے مختلف طرز کے جائزے لیتی ہے۔علیم ڈارنے کہا کہ ہم ابھی تک کورسز میں شامل ہوتے ہیں یا آپ کہہ سکتے ہیں آئی سی سی سال میں دو دفعہ ورکشاپ منعقد کرتی ہے، ان کورسز میں ہماری فٹنس ٹیسٹ، آنکھوں کا جائزہ،سننے کا امتحان لیا جا تاہے جو کچھ سخت ہیں۔

آئی سی سی کے مسلسل تین دفعہ کے سال کے بہترین امپائرنے کہاکہ یہ کامیابیاں مشکلوں سے ملتی ہیں اور خاص سوچ کے تحت پیشے میں آپ بڑی کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔علیم نے کہا کہہرمیچ میرے لیے بہت اہم ہے، میں ہر میچ کو اپنے پہلے میچ کی طور لیتا ہوں۔علیم ڈار نے ان کئی لمحات پر خوشی کا اظہار کیا جب ان کا نام ملک کے نام کے ساتھ منسلک کرکے انعامات کے لیے بلایا گیا میں ان لمحات کو بیان نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہاکہ بلاشبہ وہ لمحہ میرے لیے خوشی اور فخر کا تھا میرے آنکھوں میں آنسو تھے، میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس سطح تک پہنچ جاوٴں۔علیم ڈار نے اپنے کیرئر کے آغاز میں ویسٹ انڈیز کے مشہور امپائر اسٹیو بکنر کی پیروی کی۔ انہوں نے کہا کہ میں کہوں گا کہ نہ صرف اس پیشے (امپائرنگ) میں لیکن کسی بھی پیشے سے آپ کا تعلق ہو اس کے عروج تک پہنچنے کی کوشش کریں اور اپنے شعبے میں بہترین بننے کی کوشش کریں۔

علیم ڈارنے کہاکہ کسی کو آئیڈیل مانیں جیسے میں نے ابتدا میں اسٹیو بکنر کواپنا آئیڈیل مانا تھا اور میں اس کی امپائرنگ دیکھتا تھا آپ کیلئے رول ماڈل بنا نا ہوگا۔علیم ڈار نے کہاکہ ٹیلی ویڑن پر کرکٹ دیکھیں اور امپائر سے قبل فیصلہ دینے کی کوشش کریں چاہے ایل بی ڈبلیو ہو یا کوئی اور فیصلہ۔پاکستان کے علیم ڈار نے کہا کہ سب سے ضروری، اپنا کام دیانت داری سے کریں اگر کوئی اپنے پیشے سے دیانت نہیں کرتا وہ اس میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔انہوں نے کہاکہ دیانت اور محنت کسی بھی کامیابی کی کنجی ہیں ، اگر آپ کے پاس یہ دونوں چیزیں ہوں تو کوئی خواب آپ کے سامنے نا ممکن نہیں۔

متعلقہ عنوان :