سعودی عرب میں سزائے موت پانے والے شعیہ عالم شیخ نمر النمر نے2008میں امریکی حکام سے بھی ملاقات کی

‘ انھوں نے کوشش کی تھی کہ انھیں امریکہ مخالف نہ سمجھا جائے اور نہ ہی انہیں ایران کا حامی سمجھا جائے:وکی لیکس

Umer Jamshaid عمر جمشید پیر 4 جنوری 2016 11:00

سعودی عرب میں سزائے موت پانے والے شعیہ عالم شیخ نمر النمر نے2008میں امریکی ..

لندن(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔ 04 جنوری۔2015ء) سعودی عرب میں سزائے موت پانے والے شعیہ عالم شیخ نمر النمر سعودی حکومت کے شدید ناقدین میں سے تھے۔شیخ نمر سعودی عرب کے مشرقی صوبے قطیف کے ایک گاوٴں میں 1959 یا 1980 میں پیدا ہوئے اور پھر کئی سالوں تک تہران اور شام میں زیرِتعلیم رہے۔ان کی سعودی عرب واپسی 1994 میں ہوئی جس کے بعد وہ جلد ہی مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنے خیالات کی وجہ سے سعودی خفیہ اداروں کی نظر میں آ گئے۔

عرب نشریاتی ادارے کے مطابق انھیں 2012 میں اپنی آخری گرفتاری سے قبل بھی دو مرتبہ کچھ دنوں کے لیے 2004 اور 2006 میں حراست میں لیا گیا تھا۔ 2012 کے پہلے کے چند سالوں میں شیخ نمر کی مقبولیت میں خاصا اضافہ ہو چکا تھا اور وہ سعودی عرب میں قومی سطح کے رہنما بن چکے تھے۔

(جاری ہے)

قطیف میں اپنی گرفتاری سے پہلے جب وہ ایک کار میں جا رہے تھے تو ان کا پیچھا کرنے والوں نے ان کی گاڑی پر شدید فائرنگ کی جس دوران ان کی ٹانگ میں چار گولیاں لگیں۔

اس کے بعد تین دنوں میں منشرقی سعودی عرب میں جو مظاہرے ہوئے ان میں تین لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔شیخ نمر صوبہ قطیف میں سعودی حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں پیش پیش رہے اور کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے علاوہ بحرین میں بھی وہ شیعہ نوجوانوں میں بہت مقبول تھے کیونکہ وہ دونوں ممالک میں سلفی مکتبہ فکر کے حکمرانوں کے شدید ناقد تھے۔بحرین میں جب حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آئی تو وہاں پر سعودی عرب کے فوجیوں کو حالات پر قابو کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا۔

گزشتہ دہائی کے دوران شیخ نمر کو کئی مرتبہ سعودی عرب میں گرفتار کیا جا چکا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ حراست کے دوران خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔سعودی حکام نے شیخ نمر کے خاندان والوں کو اکتوبر 2014 میں تصدیق کر دی تھی کہ انھیں دیگر جرائم کے علاوہ مملکت کے معاملات میں ’بیرونی مداخلت‘ کی کوشش کرنے میں سزائے موت دی جائے گی۔

شیخ نمر نے اپنے خلاف لگائے جانے والے سیاسی الزمات سے کبھی انکار نہیں کیا، تاہم ان کے حامی ہمیشہ سے کہتے چلے آئے ہیں کہ شیخ نمر نے کبھی تشدد کو فروغ نہیں دیا بلکہ ہمیشہ پرامن احتجاج کی حمایت کی۔جب مارچ 2013 میں ان کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی تو استغاثہ کا مطالبہ تھا کہ انھیں ’مصلوب‘ کیا جائے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب میں سنگین جرائم کے مرتکب مجرموں کے سر قلم کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو عوامی مقامات پر لٹکانے کی روایت پائی جاتی ہے۔

مقدمے کی کارروائی کے دوران انسانی حقوق کی کئی تنظیموں نے احتجاج کیا تھا کہ عدالت میں انھیں اپنے دفاع کی آزادی نہیں دی جا رہی۔ تنظیموں کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد بھی شیخ نمر کو طبعی امداد نہیں دی رہی تھی۔برطانوی جریدے کا کہنا ہے کہ جب ان کی حراست کے دوران ہی 2012 میں ان کی اہلیہ مونا جبیر الشیریانی نیویارک کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئیں تو ان کے لیے عوامی ہمدردی میں اضافہ ہو گیا تھا۔وکی لیکس نے انکشاف کیا تھا کہ 2008 میں شیخ نمر نے امریکی حکام سے بھی ملاقات کی تھی جس میں انھوں نے کوشش کی تھی کہ انھیں امریکہ مخالف نہ سمجھا جائے اور نہ ہی انہیں ایران کا حامی سمجھا جائے۔