سیاسی و مذہبی رہنماؤں اورعسکری دانشوروں کا تہران میں سعودی عرب کا سفارت خانہ جلائے جانے پر تشویش کااظہار

مولانا فضل الرحمان، چوہدری شجاعت ، لیاقت بلوچ ، عبدالرحمان مکی ، نا طاہر اشرفی ، جنرل(ر)جمشید ایاز اور دیگر کاسعودی عرب ایران کشیدگی پرردعمل کا اظہار

منگل 5 جنوری 2016 22:01

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔05 جنوری۔2016ء) سیاسی و مذہبی رہنماؤں اورعسکری دانشوروں نے سعودی عرب میں پھانسیوں کو انکا داخلی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب میں سزائے موت پر عملدرآمد کے بعد تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانہ کو جلانا انتہائی تشویش ناک ہے۔ پھانسیوں کے مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بجائے سعودی عدالتوں کے فیصلوں کا سب کو احترام کرنا چاہیے۔

ترکی اور پاکستان اس صورتحال پر الگ تھلگ رہنے کی بجائے سعودی عرب ایران کشیدگی کے خاتمے کے لیے کردار ادا کریں۔ دو اسلامی ممالک میں کشیدگی ختم ہونی چاہئے اس سے خطہ پرسکون ہو گا اور ہم آہنگی بڑھے گی۔ان خیالات کا اظہار جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان،مسلم لیگ(ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین،جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ ،جماعت الدعوۃ کے مرکزی رہنما عبدالرحمان مکی ،پاکستان علما کونسل کے چیئرمین مولانا طاہر اشرفی ،ممتاز عسکری رہنماجنرل(ر)جمشید ایاز ،برگیڈئیر (ر)اسلم گھمن،جمعیت علماء پاکستان کے صدر پیر اعجاز ہاشمی نے سعودی عرب ایران کشیدگی پرردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ سعودی حکومت نے جن لوگوں کو سزائے موت دی ہے ان میں صرف ایک شیعہ ہے۔ ویسے بھی یہ سعودی عرب کا داخلی معاملہ ہے جس طرح ایران میں انقلاب ان کا داخلی معاملہ تھا مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلم امہ بین الاقوامی سازش کا شکار ہو ر ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستیں ذمہ دار ہوتی ہے کہ اس قسم کے واقعات سے فرقہ ورانہ فسادات کی روک تھا م کر سکے۔

پاکستان مسلم لیگ کے صدر و سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی موجودہ صورتحال میں مسلم امہ کے مفاد میں نہیں ہے۔ امت مسلمہ اس وقت ایک بحران کی حالت میں ہے اور ایسے وقت میں دو مسلم ممالک کے درمیان کشیدگی ساری امت میں بے چینی بڑھانے کا سبب بن گئی ہے۔ چودھری شجاعت حسین نے تجویز پیش کی کہ وزیراعظم محمد نوازشریف سعودی عرب، ایران کے مابین کشیدگی کو ختم کرانے کیلئے پیش رفت کریں اور اس سلسلہ میں فوراً آل پارٹیز کانفرنس منعقد کر کے متفقہ لائحہ عمل طے کیا جائے۔

جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ سعودی عرب میں شیعہ رہنماؤں کو سزائے موت پر عملدرآمد کے بعد دنیا بھر میں شیعہ کمیونٹی کا احتجاج اور تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانہ کو جلانا انتہائی تشویش ناک ہے۔ان واقعات سے عالم اسلام میں دراڑ مزید گہری ہوگئی ہے جس کا فائدہ اسلام دشمن قوتیں اٹھائیں گی۔جماعت الدعوۃ کے مرکزی رہنماعبدالرحمان مکی نے کہا کہ سعودی عرب میں موت کی سزائیں ان کا داخلی معاملہ ہے۔

اس مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بجائے سعودی عدالتوں کے فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے۔ بیرونی قوتیں مسلمان ملکوں میں دراڑیں ڈال کر انہیں کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ ہمیں دشمنان اسلام کی سازشوں کو سمجھتے ہوئے انہیں ناکام بنانے کیلئے کردار ادا کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ حالیہ سزاؤں کو جذباتیت کا رنگ دینے کی بجائے حقائق کو مدنظر رکھنا چاہیے اور کسی قسم کے اشتعال انگیز ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سفارتخانوں کو جلانے اور نقصان پہنچانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

پاکستان علما کونسل کے چیئرمین مولانا طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں اختلافات ختم کروانے کے لئے میاں نواز شریف کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ،سعودی عرب میں دی جانے والی پھانسیاں ان کا اندرونی معاملہ ہے۔47لوگوں کو سزا دی گئی ہے ، 43سنی ہیں جبکہ 4شیعہ ہیں لیکن سارے سعودی ہیں،کسی دوسرے ملک کو سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کر نی چاہیے۔

ہم تہران میں سعودی عرب کا سفارت خانہ جلانے کی مذمت کرتے ہیں، کسی بھی ملک کا سفارتحانہ جلانا ملک جلانے کے برابر ہو تا ہے۔ جنرل(ر)جمشید ایاز نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران دونوں مسلم ممالک ہیں ان کی کشیدگی سے اسلام دشمن قوتوں کو فائدہ پہنچے گا۔ بات چیت سے مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔پاکستان کو آگے بڑھ کر دونوں کے درمیان صلح کرانی چاہیے۔

برگیڈئیر (ر)اسلم گھمن نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان خراب تعلقات کے حل کیلئے مسلم دنیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔جے یو پی کے مرکزی صدر پیر اعجاز ہاشمی نے کہا کہ دونوں ممالک کو چاہئے کہ وہ ایشوز کو کسی کشیدگی کی طرف لیجانے یا پھر کوئی جنگی کیفیت پیدا کرنے کی بجائے مل بیٹھ کر ایک با مقصد ٹیبل ٹاک سے مسئلے کو حل کریں اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو پھر اس صورت حال سے مسلم ممالک اغیار کے لوگ بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے جس کا امہ کو بہت زیادہ نقصان ہو گا اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ معاملات کو بات چیت سے حل کیا جائے۔