پنجاب میں سوائن فلو پھیلنے لگا، موذی وائرس سے ملتان میں ایک اور خاتون جاں بحق

لاہور میں اب تک سوائن فلو کا کو ئی کیس سا منے نہیں آیا ،19 مریضوں کے خون کے نمو نہ جات ٹیسٹ کیلئے بھجوائے گئے ہیں ‘ ترجمان ضلعی انتظامیہ

جمعہ 8 جنوری 2016 20:12

لاہور /ملتان( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔08 جنوری۔2016ء) پنجاب میں سوائن فلو پھیلنے لگا، موذی وائرس نے ملتان نشتر ہسپتال میں ایک اور خاتون کی جان لے لی جبکہ مزید 6مشتبہ مریض بھی سامنے آگئے ہیں ۔ نجی ٹی وی کے مطابق معصوم شاہ روڈ کی پچپن سالہ انیقہ سوائن فلو کے شبے میں ہسپتال میں زیرعلاج تھی اور اس کے خون کے نمونے اسلام آباد کی لیبارٹری بھجوائے گئے تھے۔

ہسپتال ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ انیقہ کے ٹیسٹ کی رپورٹ آنا باقی ہے تاہم وہ زندگی کی بازی ہار گئی۔ نشتر ہسپتال میں دو روز کے دوران سوائن فلو سے یہ دوسری ہلاکت ہے۔ بدھ کو بھی سوائن فلو سے متاثر ایک مریضہ جاں بحق ہو گئی تھی۔ پنجاب میں سوائن فلو سے متاثرہ 6مشتبہ مریض سامنے آئے ہیں جن میں ایک چکوال اور 5ملتان سے تعلق رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

سوائن فلو کی تشخیص کے لئے مریض کے گلے اور ناک کی رطوبتوں کے لیبارٹری ٹیسٹ کئے جاتے ہیں، ایک میں انفلوئنزا جب کہ دوسرے ٹیسٹ میں ایچ ون این ون وائرس کی تصدیق کی جاتی ہے ۔ دوسری جانب ترجمان ضلعی انتظامیہ لاہور نے بتایا ہے کہ لاہور میں اب تک سوائن فلو کا کو ئی بھی کیس سا منے نہیں آیا ہے اورشہر کے مختلف ہسپتالوں میں داخل کیے گئے19 مریضوں کے خون کے نمو نہ جات لے کر ٹیسٹ کے لیے نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد لیبارٹری کو بھیج دیئے گئے ہیں ۔

ترجمان ضلعی انتظامیہ لاہور نے بتایا کہ شہر کے تمام ہسپتالوں میں ایچ ون- این ون وائرس سے بچاؤ کی ادویات مو جو د ہیں اور ہسپتالوں میں داخل مریضوں کو علاج معالجے کی بہترین طبی سہو لیات فراہم کی جا رہی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال لاہور سے تعلق رکھنے والے 54مریضوں کو لا یا گیاان 54کیسزکے نمو نہ جات نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد لیبارٹری سے ٹیسٹ کروائے گئے اور لیبارٹری رپورٹ کے مطابق ان میں سے کسی میں بھی ایچ ون-این ون وائرس نہیں پا یا گیا۔

ایک رپورٹ کے مطابق میکسیکو سے شروع ہونے والی سوائن فلو کی بیماری اب دنیا کے دوسرے خطوں میں بسنے والے انسانوں کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہے۔ سوائن فلو بظاہر تو سانس کی نالی کی عام بیماریوں کی طرح ہے، جیسے انفلوئنزا، مگر اسکا وائرس چھینکنے یا کھانسنے سے دوسرے کو منتقل ہو سکتا ہے۔1918 ء میں اس کے سبب اموات کے بعد طبی ریسرچرز نے سوائن وائرس کے بارے مزید معلومات لینے اور اس کا علاج ڈھونڈنے کی کوششیں شروع کیں، مگر یہ انفلوئنزا سے کہیں زیادہ خطرناک نکلی۔

متعلقہ عنوان :