عامر کی فارم ، فٹنس پر انکی ٹیم میں جگہ بنی ، ہارون الرشید

ہمارے زیادہ تر کرکٹرز جس ماحول سے آتے ہیں اس میں زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے میرے خیال سے ان کی تربیت کا بھی انتظام کیا جانا چاہئے اور اس سلسلے میں شہریار خان بہت سنجیدہ بھی ہیں، انٹرویو

پیر 11 جنوری 2016 19:02

عامر کی فارم ، فٹنس پر انکی ٹیم میں جگہ بنی ، ہارون الرشید

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔11 جنوری۔2016ء) پاکستان کر کٹ بورڈ (پی سی بی ) کی سلیکشن کمیٹی کے چیئر مین ہارون الرشید نے کہا ہے کہ محمد عامر کی فارم و فٹنس پر ان کی ٹیم میں جگہ بنتی تھی ، آصف اور سلمان بٹ ڈومیسٹک کرکٹ کی پرفارمنس پر دوبارہ قومی ٹیم میں واپس آ سکتے ہیں، بورڈ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کررہا ، دورہ نیوزی لینڈ میں منتخب نہ ہونیوالے کھلاڑیوں کو مایوس نہیں ہونا چاہیے،محمد عرفان کو ٹیم سے ڈراپ نہیں کیا انہیں تھوڑا آرام دیا گیا ، محمد عرفان ٹیم کامستقل حصہ ہیں ،اس وقت پاکستان کو دستیاب فاسٹ بالرز میں محمد عامر سے اچھا بالر کوئی نہیں ، نیوزی لینڈ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کی خطرناک ٹیم ہے جس کو دیکھتے ہوئے ٹیم منتخب کی ، اور کیمپ میں کوچز نے بہت محنت کی ہے ، یاسر شاہ کے بعد ہمارے پاس کوئی اچھا سپنر موجود نہیں ، انٹرنیشنل لیول پر ہر کرکٹر کو بہت سی ذمہ داریوں کا خود احساس کرنا چاہئے، عوام جتنی جلدی آپ کو ہیرو مانتی ہے اس سے بھی کم وقت میں آپ ولن بن سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

اپنے ایک انٹرویو میں چیف سلیکٹر ہارون الرشید نے کہا کہ پی سی بی نے ہمیں محمد عامر کے بارے میں ہی گرین سگنل دیا تھا، عامر کی فارم و فٹنس پر ان کی ٹیم میں جگہ بنتی ہے ، آصف اور سلمان بٹ کے حوالے سے بورڈ جب گرین سگنل دے گا اور دونوں کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ کی پرفارمنس پر دوبارہ قومی ٹیم میں واپس آجائیں گے، بورڈ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کررہا ، محمد عامر کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی سے کرکٹ کو فائدہ ہوگا،عامر کے رویے پر آئی سی سی ان کی واپسی کا خواہشمند ہے بلکہ آئی سی سی نے تو کہا بھی تھا کہ کیونکہ آئی سی سی قوانین میں فکسنگ کی کم ازکم سزا ہی پانچ سال تھی ورنہ عامر کو اس سے بھی کم سزا ملتی تو پھر جب عامر پہلے ہی ضرورت سے زیادہ سزا بھگت چکا ہے تو پھر اس کی واپسی پر اعتراض نہیں کیاجاسکتا جو لوگ عامر کے خلاف موقف رکھتے ہیں ان کو بھی میں غلط نہیں سمجھتا لیکن اب اس معاملے کو چھوڑکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور عامر اب قومی سکواڈ کا حصہ بن گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ رفعت اللہ مہمند ،عمران خان جونیئرز اور سہیل تنویر کو دورہ نیوزی لینڈ میں ٹیم میں شامل نہ ہونے پر مایوس نہیں ہونا چاہیے، سہیل تنویر ماضی میں بھی کئی بار کم بیک کرچکے ہیں اور میرے خیال میں کوئی بھی کسی کرکٹرز کے مستقبل پر حتمی فیصلہ نہیں کرسکتا یہ تو کرکٹر کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ اسے کب تک کرکٹ کھیلنی ہے۔رفعت اللہ مہمند گزشتہ تین چار سال سے اچھی پرفارمنس دے رہا تھا لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے والے کرکٹرز انٹرنیشنل کرکٹ میں اب بہت جلد ایڈجسٹ نہیں ہورہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے پاس نوجوان کرکٹرز نہیں ہیں لیکن ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کو دیکھتے ہوئے ٹیم مینجمنٹ اور سلیکٹرز نے فیصلہ کیا ہے کہ اب تجربات کا وقت نہیں ہے۔

اس وقت موجود بہترین کمبی نیشن کو میدان میں اتاراا جارہا ہے لیکن پاکستان سپر لیگ کا فارم موجود ہے کرکٹرز پی ایس ایل میں کارکردگی دکھا کر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شمولیت کے دعویدار بن سکتے ہیں،کسی کو بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔کسی کے لئے بھی ٹیم کے دروازے مستقل طور پر بند نہیں کئے گئے ہیں۔ محمد عرفان کو ڈراپ نہیں کیاگیا بلکہ انہیں تھوڑا آرام دیا گیا ہے۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے پلان میں محمد عرفان شامل ہیں لیکن ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ اگر ہمیں ان کی فٹنس کا مسئلہ درپیش ہوا تو پھر ہم ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں کس طرح اس مسئلے پر قابو پائیں گے،محمد عرفان بھی ہماری ٹیم کامستقل حصہ ہیں ،اس وقت پاکستان کو دستیاب فاسٹ بالرز میں محمد عامر سے اچھا بالر کوئی دوسرا نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کی خطرناک ٹیم ہے جس کے بیٹسمینوں نے جو حشر سری لنکا کا کیا ہے، ہم نے اس کو دیکھتے ہوئے کھلاڑیوں اور خاص کرکے بالرز کو تیار کیا ہے میرے خیال میں کوچز نے بہت محنت کی ہے ،افسوس ہے کہ یاسر شاہ کا ڈوپنگ کا مسئلہ ہے اور ہمارے پاس اس وقت لیگ اسپنر موجود نہیں ہے۔

ظفر گوہر ایک اچھا آپشن تھے انہیں ہم نے ون ڈے اسکواڈ کا حصہ بنایا ہے عماد وسیم کی صلاحیتوں پر پورا اعتماد ہے۔انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل لیول پر ہر کرکٹر کو بہت سی ذمہ داریوں کا خود احساس کرنا چاہئے، عوام جتنی جلدی آپ کو ہیرو مانتی ہے اس سے بھی کم وقت میں آپ ولن بن سکتے ہیں اس لئے زیادہ ذمہ داری تو خود کرکٹرز پر عائد ہوتی ہے بورڈ کھلاڑیوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرتا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے زیادہ تر کرکٹرز جس ماحول سے آتے ہیں اس میں زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے میرے خیال سے ان کی تربیت کا بھی انتظام کیا جانا چاہئے اور اس سلسلے میں شہریار خان بہت سنجیدہ بھی ہیں۔ ۔

متعلقہ عنوان :