سینیٹ قائمہ کمیٹی ہاؤسنگ اینڈ ورکس کااجلاس

2009 سے پاک پی ڈبلیوڈی میں مستقل ڈائریکٹرجنرل کی تعیناتی میں وزارت کی مکمل ناکامی اور ڈی جی پاک پی ڈبلیو ڈی کی کرنٹ چارج تعیناتی کی قانونی حیثیت ، ساؤتھ زون کراچی دفتر میں چیف انجینئر کے کرنٹ چارج کی قانونی پوزیشن اور وزارت کی مجموعی کارکردگی کے معالات زیر بحث آئے

بدھ 20 جنوری 2016 20:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔20 جنوری۔2016ء ) سینیٹ قائمہ کمیٹی ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے چیئرمین سینیٹر مولانا تنویرالحق تھانوی کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلا س میں 2009 سے پاک پی ڈبلیوڈی میں مستقل ڈائریکٹرجنرل کی تعیناتی میں وزارت کی مکمل ناکامی اور ڈی جی پاک پی ڈبلیو ڈی کی کرنٹ چارج تعیناتی کی قانونی حیثیت ، ساؤتھ زون کراچی دفتر میں چیف انجینئر کے کرنٹ چارج کی قانونی پوزیشن اور وزارت کی مجموعی کارکردگی کے معالات زیر بحث آئے۔

اجلاس میں سینیٹرز شاہی سید،سعید الحسن مندوخیل ، خالد پروین کے علاوہ وفاقی وزیر اکرم خان درانی ، سیکرٹری وزارت شاہ رخ ارباب، قائمقام ڈی جی پی ڈبلیو ڈی اکبرعلی شیخ شرکت کی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اجلاس کسی شخصیت کے خلاف نہیں پاک پی ڈبلیو ڈی میں مستقل ڈی جی کی عدم دستیابی مسئلہ ہے ۔

(جاری ہے)

قومی محکمہ مسائل کا شکار ہے ۔لوگوں کی بڑی تعداد ساؤتھ زون کراچی کے چیف انجینئر سریش مل کے بارے میں شکایت کرتی ہے ۔

سیکرٹری ہاؤسنگ کو خط لکھا اور سفارش کی کہ کرنٹ چارج کی بجائے نئے ایک مستقل ایماندار افسر کو چیف انجینئر تعینات کیا جائے ۔کمیٹی چیئرمین نے ہدایت دی کہ قائمقام ڈی جی پی ڈبلیو ڈی علی اکبر شیخ کی تعیناتی کے بارے میں وزیراعظم کی منظوری اور سمری کی کاپی کمیٹی کو پیش کی جائے اور آگاہ کیا جائے کہ سنٹرل سلیکشن بورڈ نے سریش مل کو کس بنیاد پر انڈ واچ رکھا جبکہ اسٹبلیشمنٹ ڈویژن انٹرا کورٹ اپیل میں ہائیکورٹ گئی ہے ۔

سیکرٹری وزارت ہاوزنگ نے کہا کہ کمیٹی کا احترام لازم ہے ۔تحفظات کو دور کرنے کی ذمہ داری ہے ۔پچھلے ڈی جی کی ریٹائرمنٹ کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو ترقیوں کے کیس بھجوائے کوئی بھی ترقی نہ دی گئی ۔پی ڈبلیو ڈی کے معاملات چلانے میں مشکلات تھیں۔اور محکمے میں موجودہ ڈی جی سینئر ترین ہیں ۔ اسٹبلیشمنٹ ڈویژن نے مخالفت کی تھی لیکن وزیراعظم نے 90 دن کیلئے لک آفٹر چارج دے دیا ہے ۔

چار دفعہ افسران کی 21 گریڈ میں ترقیوں کے کیس بھجوائے گئے اور تجویز دی کہ مستقبل ڈی جی موجود نہیں ۔سنٹرل سلیکشن بورڈ میں رولز کی ترمیم کر دی جائے تاکہ ڈی جی باہر سے بھرتی کیا جا سکے اور یہ بھی تجویز دی کہ 50 فیصد افسران کی ترقی اور 50 فیصد کو ڈیپوٹیشن پر لینے کی اجازت دی جائے ۔معاملہ ابھی تک زیر التواء ہے ۔سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے کہاکہ محکمہ ترقیوں کے کیس کیلئے اثر و رسوخ استعمال کریں یا آفسیرز ڈیپوٹیشن پر لائیں ۔

سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ محکمہ میں ترقیاں نہ ہونے کی وجہ کرپشن ہے افسروں پر کرپشن کے الزامات ہیں اور انکوائریاں چل رہی ہیں۔ وفاقی وزیر اکرم خان درانی نے کہا کہ دو دفعہ اسٹیبلشمنٹ سیکرٹری کو رولز میں نرمی کی درخواست کی بار بار خطوط لکھے ذاتی بھی کوشش کر رہا ہوں۔ 20 گریڈ کا چیف انجینئر سپریم کورٹ گیا فیصلہ اس کے خلاف اور اکبر علی شیخ کے حق میں آیا بلوچستان میں چیف انجینئر اور ایس ای موجود نہیں ایکسین کا چارج ایس ڈی او کو دیا ہوا ہے ۔

ایس ڈی او کی خالی اسامیاں پڑی ہیں ایف پی ایس سی کے ذریعے بھرتیاں کریں گے ۔5 سے6 سو اسامیاں خالی پڑی ہیں یونین کوٹہ مانگ رہی ہے اور یونین نے عدالت سے حکم امتناعی لے لیا ہے لیگل ایڈوائز دلچسپی نہیں لیتے وکیل کا زیادہ ادائیگی کریں تو اعترض ہوتا ہے 40 سے50 لاکھ وکیل کی فیس ہے اور آگاہ کیا کہ کراچی کی مہنگی ترین 20 ارب کی پراپرٹی واگزار کر لی ہے ۔

40 کروڑ کا کلیم بھی نہیں دینا پڑا ۔مستقبل ڈی جی بھرتی ہو جائے تو ادارے میں اور زیادہ بہتری آئے گی ۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ غیر قانونی چارچ دیا نہ دیں گے ۔ سیکرٹری وزارت نے آگاہ کیا کہ سنٹرل سلیکشن بورڈ کے اجلاس میں خود موجود تھا ۔افسران کے خلاف شکایت اور انکوائری نہیں تھی ۔سیکرٹری وزارت نے اگلے گریڈ میں ترقی کا معاملہ کار کردگی دیکھ کر فیصلہ کرنے کا کہہ کر موخر کر دیا ۔

کراچی میں سینئر افسران کی کمی ہے کرنٹ چارج کی شرط پر سینئر کو چارج دیا جا سکتا ہے ۔سریش مل کے بارے میں عدم اطمینان کی رپورٹ موجو د نہیں گریڈ کم کرنے کی وجہ بھی موجود نہیں۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ حیرت کا مقام ہے کہ محکمے میں متبادل شخص موجود نہیں اور کہا کہ ایک باپردہ خاتون کو چندر کمار نامی سپرٹینڈنٹ انجینئر نے دھمکیاں دیں جس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ بیٹیوں کی عزت ہماری عزت ہے کسی کے ساتھ رعایت نہیں ہوگی ایسی سزا دیں گے جو یاد رہے ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہر زونل دفتر میں شکایت سیل قائم کیا جانا چاہیے۔سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ محکمے کے حالات برے ہیں نالائقیاں عام ہیں شکایتیں عام ہیں ۔ خامیاں ختم کرنے کیلئے کمیٹی قانونی مدد کے لئے موجود ہے اور کہا کہ عدالتوں میں اچھا وکیل کیا جائے ۔پانچ چھ سو خاندانوں کو نوکریاں ملیں گی ۔سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ میرٹ پر نوکریاں دی جائیں اور یونین کے ساتھ معاملات بیٹھ کر حل کیے جائیں ۔

وفاقی وزیر اکرام درانی نے کہا کہ اپنا گھر سکیم کیلئے چاروں صوبوں کو خطوط لکھے ہیں سندھ کے علاوہ تینوں صوبوں نے زمینوں کی نشاندہی کر دی ہے ۔12 لاکھ میں دو کمرے ، باتھ روم ، برآمدہ ، کچن فراہم کیا جائے گااور کہا کہ کراچی جہانگیر روڈ پر بہترین لوکیشن میں تین ہزار گھروں پر ناجائز قبضہ ہے درمیان میں خالی پڑی جگہ پر فلیٹ بنا کر قبضے دیئے جائیں گے اور کہا کہ اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کی رہائش بڑا مسئلہ ہے سیکٹر ایف سکس میں 60 سالہ 90 پرانے گھر ہیں ۔

وزیراعظم کو گھر گرانے کیلئے سمری بجھو دی ہے 14 منزلہ عمارتوں میں 1200 فلیٹ تعمیر ہونگے ۔مکمل ہونے والے فلیٹوں میں ملازموں کو شفٹ کیا جائے گا۔ وزارت خزانہ سے ایک روپیہ بھی نہیں مانگا گیا۔17 فیصد زمین کو نیلام کر کے آمدنی حاصل کی جائے جس سے فلیٹ تعمیر ہونگے اس کے بعد جس سکس اور لال کواٹر کے مکانات پر بھی کئی منزلہ عمارتوں پر مشتمل فلیٹ بنانے کا پروگرام ہے ۔

دو دن بعد وزیر اعظم کے ساتھ اجلاس ہے900ملینمانگے ہیں جنرل پبلک کیلئے8فیصد قرضے پر سٹیت بنک سبسڈی دے گا۔اور درخواست ککندہ کو ڈیڑھ لاکھ ایڈوانس دینا پڑے گا۔وفاقی ویزر نے آگاہ کیا کہ سٹیٹ آفس اسلام آباد مین خالی گھروں کی کل تعداد رہنے والے سرکاری ملازمین کے محکموں کا ریکارڈ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے دوران چل گیا تھا ۔40ٹیموں کے ذریعیے اسلااآباد کے سرکاری مکانات میں رہائش پذیر افراد اور محکموں کا سروے مکمل ہو چکا ہے ۔

22ہزار ملازمین کی مکانات کی درخواستیں موجود ہیں ،مستقل حل کی طرف سفر جاری ہے ۔سینیٹر شاہی سید اور سعید الحسن مندوخیل کی طرف سے بہارہ کہو اور سکیم تھری کے حوالے سے سوال کے جواب پر آگاہ کیا کہ 32ہزار کنال کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن نیس پاک کی پیمائش میں 8ہزار کنال زمین کم نکلی۔زمین فراہم کرنے والے نے سپریم کورٹ میں بیان دیا کہ رقبہ مکمل کر کے دونگا۔

رقم دینے کیلئے بھی تیار ہے ۔گرین ٹری اور محکمے ک اسروے مکمل ہو چکا ہے مزید 7ہزار کنال سیکش فور کے ذریعے ڈیڑھ سال میں حاصل کرینگے۔30ہزار پرانی ممبر شپ ہے پہلے آئی پہلے پائے کا طریقہ غلط تھا اس سے ریٹائرمنٹ کے قریب ملازمین کا نقصان ہو گا اب75ہزار نئی ممبر شپ ہو گئی ہے۔7ہزار کنال بہارہ کہو 8ہزار کنال زمین پارک روڈاسلام آباد میں حاصل ہو گئی ہے۔

65 ہزار کنال کا انتظام کیا جائے گا۔پی ایچ اے کے ذریعے 5700 فلیٹ D_12 میں 3700فلیٹس I-16 میں دیئے جائیں گے۔جی 14کا ایک حصہ خالی کر لیا گیا ہے ۔جG-13میں فلیٹون کی تعداد 4000کررہے ہیں دو سال سے نامکمل کری رود کے منصوبے کا جلد افتتاح ہو گا۔15سال سے سرکاری ملازمین کیلئے گھروں پر پابندی ہے وفاقی کابینہ میں وزیر اعظم کو سرکاری ملازمین کی ہائرنگ سو فیصد اضافے کی سمری دی۔

35فیصد اضافہ منظور ہوا۔اسلام آباد میں سپر مارکیٹ کے نزدیک اربوں روپے کی جگہ کچی آبادی کے مکینوں سے مزاکرات کے زریعے خالی کرائی جائے گی جہاں فلیٹس تیار کر کے قبضے دیئے جائیں گے زیرو پوائنٹ کے پاس سٹیٹ بنک کالونی میں400فلیٹوں پر قبضہ ہے ۔پارلیمنٹ اور وزیر اعظم ہاؤس کے پچھلے طرف مسلم کالونی پر بھی قبضہ ہے ،جلد قبضہ حاصل کر لینگے۔پہلی بار 600ملازمین کو میرٹ پر گھر الاٹ کئے گئے ہیں۔

کمیٹی کا آئندہ اجلاس کراچی میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور سینیٹر ہمایوں مندوخیل کی طرف سے بلوچستان کے فیڈرل لاجز کی مرمتی اور کام تیز کرنے کی ہدایت کی گئی۔چیئرمین کمیٹی نے وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس اکرام خان درانی کی انتھک کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر ہمارے لئے قابل احترام ہیں اور ان کو جہاں کہیں بھی کمیٹی کی حمایت یا مدد چاہتے ہیں ہم اس کے لئے تیار ہیں ۔

انہوں نے وفاقی وزیر اکرم خان درانی کے سرکاری ملازمین کیلئے نئے فلیٹس بنانے کے منصوبے کو بھی خوب سراہا ۔چیئرمین کمیٹی نے وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کو ایڈوائز دی کہ وہ سنٹرل سلیکشن بورڈ / اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے وجوہات طلب کریں جن کی بناء پر سریش مل کو انڈر واچ رکھا گیا نیز پی ڈبلیو ڈی میں مستقل ڈائریکٹرجنرل کی تعیناتی کیلئے سمری بھیجی جائے اور اس کی ایک کاپی کمیٹی کو ارسال کریں ۔

متعلقہ عنوان :