سینیٹ میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کی چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی شدید مذمت

ہمیں دہشتگردی کے خلاف متحد ہونا ہوگا‘ آخری دہشتگرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھی جائے گی‘ یہ وقت سیاست کا نہیں اتحاد و یکجہتی کے مظاہرے کا ہے‘ ہمیں اپنے وسائل کا رخ دہشتگردوں کے خلاف جنگ کی طرف موڑنا ہوگا، ارکان کا اظہار خیال

بدھ 20 جنوری 2016 22:41

اسلام آباد ۔ 20جنوری (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔20 جنوری۔2016ءایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر دہشتگردوں کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں دہشتگردی کے خلاف متحد ہونا ہوگا‘ آخری دہشتگرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھی جائے گی‘ یہ وقت سیاست کا نہیں اتحاد و یکجہتی کے مظاہرے کا ہے‘ ہمیں اپنے وسائل کا رخ دہشتگردوں کے خلاف جنگ کی طرف موڑنا ہوگا۔

بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران عوامی اہمیت کے معاملہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ یہ منفی سیاست کرنے کا وقت نہیں ہے ہمیں متحد ہو کر دہشتگردی کی کارروائیوں کا مقابلہ کرنا ہے، حکومت کو قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا چاہیے۔

(جاری ہے)

مولانا عطاء الرحمان نے کہا کہ چارسدہ میں یونیورسٹی پر حملہ انتہائی افسوسناک ہے، ہمیں دہشتگردی کے مسئلے کا حل مل جل کر نکالنا ہوگا۔

سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ چارسدہ میں یونیورسٹی پر حملہ قابل مذمت ہے اس حملے سے دہشتگردی کے خلاف ہمارا عزم متاثر نہیں ہوگا۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ہمیں اپنے وسائل کو دہشتگردی کے خلاف جنگ اور انتہا پسندی کے خاتمے کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے، ہم پاک سرزمین سے آخری دہشتگردی کے خاتمہ تک جنگ جاری رکھیں گے۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملہ انتہائی افسوسناک ہے‘ دہشتگردی کی کارروائیوں کی روک تھام کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان مربوط روابط قائم کرنے کی ضرورت ہے، نیکٹا کو مزید فعال بنایا جائے۔

سینیٹر ثمینہ عابد نے کہا کہ دہشتگرد سافٹ ٹارگٹ کو نشانہ بنا رہے ہیں‘ کسی کو اس معاملے پر بلیم گیم نہیں کرنی چاہیے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ دہشت گرد ہمارے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں‘ دہشت گرد ایک ہی طرز کے حملے کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کیلئے وفاقی و صوبائی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان روابط کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، سیکیورٹی معاملات پر بریفنگ کیلئے ایوان کا ان کیمرہ اجلاس بلایا جائے۔

سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے، ہم مصلحت کا شکار ہو کر دہشت گردی کی وجوہات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ انہوں نے پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کی تجویز کی حمایت کی اور کہا کہ عسکری‘ سیاسی اور مذہبی قوتیں ایک میز پر بیٹھیں‘ کوئی بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں‘ ہمیں مستقبل میں دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ہم چھپے ہوئے دشمن کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، ہم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں، پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی ہے اور ہمیں اس کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔ نگہت مرزا نے کہا کہ محض دعاؤں سے دہشت گرد حملے نہیں ٹلیں گے‘ ہمیں تدبیر کرنا ہوگی۔سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ دہشت گرد قومی اتحاد کو سبوتاژ کرنے کے لئے بچوں پر حملے کرتے ہیں، یہ متحد ہو کر ایک آواز بلند کرنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے عزم کرنے کا وقت ہے، دہشتگردی کسی ایک حکومت یا جماعت کا نہیں سب کا مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم چارسدہ واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہیں، آپریشن ضرب عضب کے بہترین نتائج سامنے آئے ہیں، دہشت گردی کے واقعہ پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمیں متحد ہو کر دہشتگردوں کا مقابلہ کرنا ہے کیونکہ یہ انسانیت کے دشمن ہیں۔ سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ معمول کے طریقوں سے اس صورتحال سے نہیں نمٹا جاسکتا، دہشتگرد شہروں‘ گلیوں اور محلوں میں پھیل گئے ہیں، آج کا واقعہ ہمیں جگانے کیلئے کافی ہے، پڑوسیوں پر الزام تراشی کرنے کی بجائے ہمیں خود کو درست کرنا ہوگا۔

کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ ہماری حکمت عملی جنگی نوعیت کی ہونی چاہیے، وفاقی و صوبائی حکومتیں‘ انٹیلی جنس ادارے اور مقامی انتظامیہ عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی۔ انہوں نے کہا کہ فوج نے بہت اچھا کام کیا ہے اور قربانیاں دی ہیں۔ سینیٹر حمد اللہ نے کہا کہ جے یو آئی (ف) چارسدہ میں دہشتگردی کی شدید مذمت کرتی ہے‘ ہم شہداء اور ان کے خاندانوں اور زخمیوں کے لئے دعا گو ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کے حملے کی پہلے سے اطلاع تھی، صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ اطلاع پر کارروائی کرتی لیکن حملے سے قبل اقدامات کیوں نہیں کئے گئے، کہیں تو کسی نے غلطی اور غفلت کا ارتکاب کیا ہے، ہمیں ناکامی کا اعتراف کرنا ہوگا، جو بھی واقعہ ہو اس کو روکنے میں ناکامی اور غفلت کا مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔

سینیٹر ایم حمزہ نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جائیں، دہشتگردی میں جاں بحق ہونے والوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں، بحیثیت قوم فیصلہ کرنا چاہیے کہ دہشتگردی کے واقعات کا سدباب کریں۔ سینیٹر میر کبیر شاہی نے کہا کہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا کر صورتحال پر غور کیا جائے۔ سینیٹر نثار محمد خان نے کہا کہ ہمیں دہشتگردی کے واقعات کی روک تھام کیلئے واضح سمت کا تعین اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا، وفاق اور صوبوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اس حوالے سے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے۔

سینیٹر خالدہ پروین نے کہا کہ اس واقعہ سے نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی نظر آرہی ہے۔ نیکٹا کو فعال نہیں کیا گیا۔ سینیٹر داؤد خان اچکزئی نے کہا کہ افغانستان میں امن ہونے تک پاکستان میں امن نہیں ہوگا، ہمیں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا، ایوان کی کمیٹی بنائی جائے جو نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا جائزہ لے۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ہم دہشت گردی ختم کرنے والی پالیسی بنانے میں ناکام رہے ہیں‘ ہمیں عوام کی سوچ بدلنے کیلئے کچھ کرنا ہوگا، دہشت گردی کے خلاف پوری قوم کو متحد ہونا ہوگا۔

سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ آج ہم سب غم و اندوہ کا شکار ہیں، آپریشن ضرب عضب سے دہشت گردی میں 60 سے 70 فیصد کمی آئی ہے، ہماری کامیابی کا بین الاقوامی طور پر اعتراف کیا جارہا ہے، سانحہ صفورا ہوا‘ کیا اس کے لئے سندھ حکومت کو الزام دیا جائے، وفاقی و صوبائی حکومتوں کو الزام دینے کی بجائے ہمیں دہشت گردی کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔ ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف اتحاد و اتفاق کو خراب کرنے والی باتیں نہ کی جائیں، قوم نے ریاستی و سیکیورٹی اداروں کو تمام اختیارات تفویض کئے اس کے باوجود دہشتگردی کے واقعات کیوں ہو رہے ہیں، ہمیں پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ چارسدہ کے واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، ہم ماضی کے غلط فیصلوں کا خمیازہ دہشت گردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں، ہم کب تک جنازہ اٹھاتے اور قراردادیں منظور کرتے رہیں گے، پارلیمانی نگرانی کی کمیٹی کی تجویز سے اتفاق کرتا ہوں۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ کیا یہ جنگ صرف پی پی پی‘ تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) یا دیگر جماعتوں کی جنگ نہیں، یہ پاکستان کی جنگ ہے‘ ہمیں ایک دوسرے کو معطون نہیں کرنا چاہیے، یہ کسی حکومت کی نہیں، ریاست کی جنگ ہے، ماضی میں کوئی نیشنل ایکشن پلان نہیں تھا‘ آج ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم خطے میں امن کے لئے بیرونی دورے پر ہیں، ہمیں الزام تراشی کی بجائے اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اس معاملے پر پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ دہشتگردی صوبائی مسئلہ نہیں وفاقی مسئلہ ہے، یہاں پارلیمان کی بالادستی نہیں ہے، بگٹی قتل کیس میں سابق جنرل عدالت میں بھی نہیں گیا ‘ محل میں بیٹھا رہا اور بری ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے اور پارلیمان کے اختیار کے معاملے پر بحث کی جائے۔ بریگیڈیئر ولیمز نے کہا کہ ہمیں خود کو بچانے کے لئے کچھ کرنا ہوگا۔ سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ چارسدہ واقعہ کی ہر کوئی مذمت کر رہا ہے، اپنے معروضی حالات کا بھی ہمیں جائزہ لینا ہوگا، دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے، مشرقی و مغربی سرحدیں بہت لمبی ہیں‘ سرحد کے دوسری جانب کوئی اقدامات نہیں ہیں۔

چارسدہ حملوں جیسے واقعات روکنا آسان نہیں، ہمیں متحد ہوکر صورتحال کا مقابلہ کرنا ہوگا، وقت کے ساتھ بہتری آرہی ہے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ یہ متنازعہ باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے، ہمیں اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ سینیٹر تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ ہم اس واقعہ کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، مدرسوں اور مساجد کو نگرانی میں لانا چاہیے۔

سینیٹر صلاح الدین ترمذی نے لواحقین سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اے پی ایس کے واقعہ کی انکوائری ہوتی تو ہم بہتر طور پر تیار ہو سکتے تھے، ایسے واقعات کی انکوائری کراکے ذمہ داران کو سزا ملنی چاہیے۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ محض لفاظی نہیں، دہشتگردی کے خاتمے پر توجہ دی جانی چاہیئے۔ سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ پارلیمان کے ذریعے داخلہ و خارجہ پالیسی بنائی جائے۔

چیئرمین سینٰٹ نے کہاکہ ہم ایک ناکام ریاست نہیں ہیں۔ سینیٹرکریم احمد خواجہ نے کہا کہ ہمیں غیر جانبداری کی بھٹو کی پالیسی اپنانا ہوگی، چارسدہ جیسے واقعات اداروں کی ناکامی ہے، پارلیمان میں فیصلے کرنا ہوں گے۔ سینیٹر عتیق شیخ نے کہا کہ جن کے گھر میں صف ماتم بچھی ہے وہی اس دکھ کو جانتے ہیں، عوام کو تحفظ فراہم کرنا کس کی ذمہ داری ہے،دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ قوم کے مستقبل پر حملہ ہے۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملہ انتہائی تشویشناک ہے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے ایوان بالا میں جائزہ لیا جائے۔سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیراعظم پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نے قدم بڑھائے تو اس پر بڑی لے دے ہوئی، خاص ذہن کے لوگوں نے لکھا کہ کاروباری مفاد ہے‘ ہم نے صاف کہا کہ خوش آمدید کہتے ہیں، بھارتی وزیراعظم اور نواز شریف دونوں کے اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں، ہندوستان سے تعلقات پر ہم حکومت کے ساتھ ہیں، ایران اور سعودی عرب جانے کی بھی حمایت کرتے ہیں، اگرچہ طریق کار پر اختلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمان وزیراعظم کی برادری ہے‘ اس میں آئیں اس کو اعتماد میں لیں‘ پارلیمنٹری سٹرکچر بنائیں‘ کمیٹی بنائیں جو دہشتگردی کے خلاف جنگ کی اونر شپ لے۔ انہوں نے کہا کہ نفرت آمیز تقریروں ‘ مدارس کے حوالے سے کچھ نہیں ہوا، دہشتگردی کا وائرس دنیا بھر کے مسلمانوں میں پھیل گیا ہے، یہ سارا زہر ہمارا اپنا گھولا ہوا ہے، اس ذہنیت کا جامع حکمت عملی سے ہی مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔