قومی اسمبلی ،متحدہ اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود ایمنسٹی ٹیکس سکیم اور پی آئی اے نجکاری بل2016کثرت رائے سے منظور ‘ اپو زیشن کا احتجاج ، بلوں کی کاپیاں پھاڑ کر ایوان میں لہرادیں

حکومت اپنے لوگوں کو نوازنے کیلئے ایمنسٹی بل لائی ،ملکی تاریخ میں یہ بل 9 ویں بار پیش ہو رہا ہے، پہلے بھی کامیاب نہیں ہوا اور اب بھی نہیں ہو گا، خورشید شاہ ،کہ حکومت کو عددی اکثریت حاصل ہے مگر ایوان مشاورت سے چلتا ہے، شاہ محمود قریشی کی ڈپٹی سپیکر سے تلخ کلامی ،پی آئی اے آرڈیننس عجلت میں لایا گیا تھا، اب ایمنسٹی بل اور پی آئی اے بل منظور کرنا درست نہیں ،صاحبزادہ طارق اﷲ کا ایوا ن میں پیش کئے گئے بلوں پر اظہار خیال

جمعرات 21 جنوری 2016 18:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔21 جنوری۔2016ء) قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود کالے دھن کو سفید کرنے کا بل ایمنسٹی ٹیکس سکیم بل 2016اور پی آئی اے کارپوریشن بل 2016کثرت رائے سے منظور کرلیاگیا ۔ متحدہ اپو زیشن ارکان کی جانب سے ایوان سے واک آؤٹ ‘ اپو زیشن کی جانب سے دونوں بلوں کی کاپیاں پھاڑ کر ایوان میں لہرادی گئیں ‘ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور نے کہاکہ اڑھائی سالوں میں پی آئی اے پر ہی بات ہو رہی ہے ‘ 1997 میں ہماری حکومت نے پی آئی اے کو منافع بخش ادارہ بنایا تھا۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت اپنے لوگوں کو نوازنے کیلئے ایمنسٹی بل لائی ۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ 9 ویں بار بل پیش ہو رہا ہے پہلے بھی کامیاب نہیں ہوا اور اب بھی نہیں ہو گا ‘ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت کو عددی اکثریت حاصل ہے مگر ایوان مشاورت سے چلتا ہے۔

(جاری ہے)

شاہ محمود کی ڈپٹی سپیکر سے تلخ کلامی ‘ صاحبزادہ طارق اﷲ نے کہا کہ پی آئی اے آرڈیننس بھی عجلت میں لایا گیا تھا اب ایمنسٹی بل اور پی آئی اے بل منظور کرنا درست نہیں ۔

عبدالرشید گوڈیل نے کہاکہ سمجھ نہیں آ رہا کہ حکومت کس کو نواز رہی ہے ‘ کراچی پاکستان کا 80 فیصد ٹیکس دیتا ہے ا سطرح کے قوانین بنتے رہے تو کوئی بھی ٹیکس نہیں دے گا۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایمنسٹی بل بنتے رہے تو کوئی بھی ٹیکس نہیں دے گا۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایمنسٹی بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ چھٹا ایمنسٹی بل لایا جا رہا ہے ‘ اس پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہوا ہے ‘ کسی ایوان کے ممبر کو ریلیف نہیں ملنا چاہیے اور عوام کا نمائندہ اگر چو ر ہے تو وہ آرٹیکل62 اور 63 کے تحت اس ایوان کا ممبر ہی نہیں بن سکتا۔

2012ء میں یہ بل پچھلی حکومت جب لے کر آئی تھی تو عوام کا دباؤ اور ایوان کا دباؤ تھا اور کابینہ میں بھی اس پر بحث ہوئی او راس بل سے پاکستان میں رہنے والے متاثر ہوں گے ‘ سروے کے ذریعے 30 لاکھ ٹیکس دینے والو ں کی نشاندہی کی ‘ پاکستان میں ٹیکس دینے والو ں کی تعداد 1 فیصد ہے ‘ بھارت میں 4 فیصد ہے اور وہ ٹیکس دینے والوں کی حفاظت اور ان کو اعتماد فراہم کرتے ہیں‘ جس وثوق سے آج حکومت کہہ رہی ہے وہ نہیں ہو گا حکومت کو جن سے فائدہ ہے انہیں فائدہ دیا جا رہا ہے ٹیکس دینے والوں میں اضافہ کرانے کی بات حکومت کی خام خیالی ہے۔

ہماری حکومت میں ریونیو کلیکشن ایک ہزار ارب روپے تھی اور 2012ء میں 2 ہزار ارب کر دی تھی اور اڑھائی سال میں 23 ہزار پر پہنچنے ہیں ‘ موجودہ وزیر خزانہ 4جنوری 2015ء میں اس کے خلاف تقریر کی ہے انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم 5 سال کے بعد کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے بل لے کر آتے ہیں۔ انہوں نے بہت کچھ کیا تھا۔ اس وقت آپ اپو زیشن میں تھے میاں نوا زشریف نے کہا تھا کہ ہم اقتدار میں آ کر سیلز ٹیکس 10 فیصد پر لے کر آئیں گے اور آج 51 فیصد ہے اور یہ نیچے لانا ہے۔

اس وقت 15 فیصد ہے جب قوم کے لیڈر عوام سے جھوٹ بولیں گے تو عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شہادت اور جلا وطنی کی قسم ایسے بل کو پارلیمان میں نہ لایا جائے اور آج پھر اپنے قول و فعل کی غلطیوں کے ذریعے عوام کا اعتماد نہ اٹھایا جائے۔ اگر آج میڈیا نے عوام کا ذہن بدل دیا تو نہ ہم بچیں گے نہ یہ پارلیمنٹ بچے گی۔

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے کہاکہ اٹک قلعے میں 6 گھنٹے وزیر اعظم کے ساتھ ہوتا تھا ان کے کبھی بھی آنسو نہیں گرے۔ انہوں نے وہاں کہا کہ پاکستان دنیا میں ایک عظیم ملک بن جائے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ میں نے تو ان کی جرات کی تعریف کی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیر خزانہ نے 4 جنوری 2013ء کو جو کچھ کہا ہم اسے مانتے ہیں انہوں نے جو کچھ ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں اگر ہم ٹیکس نہیں جمع کریں گے تو ہم دنیا میں کشکول لے کر پھریں گے جیسا آج ہم پھر رہے ہیں۔

ٹیم آج دفاع سے بھی زیادہ رقم قرضوں پر سود کی مد میں ادا کرتے ہیں میثاق جمہوریت میں دو بڑی جماعتوں کی جانب سے عوام اور ملک کو ترقی دینے کی بات کی تھی اور آج ہمیں میثاق معیشت پر اتفاق کرنا چاہیے۔ ہماری آبادی جس تیزی سے غریب سسکیاں لے رہے ہیں اور آج میثاق معیشت پر عمل نہیں ہو رہا او ریہ 9 واں ایمنسٹی بل ہے پہلا بل جنرل ایوب خان کے دور میں آیا۔

9 مرتبہ عوام طوطا مینا کی یہ کہانی سن چکی ہے۔ ود ہولڈنگ ٹیکس کو جب بڑھایا گیا تو اس پر تحریک انصاف نے آواز اٹھائی اور پورے پاکستان کے تاجر اس پر متفق ہوئے اور ہڑتالیں ہوئیں۔ آج یہ تبدیلی کیسے ائی جب پچھلی حکومت یہ بل کے آئی تھی تواس وقت حکومتی بنچوں کا نقطہ نظر مختلف تھا۔ تحریک انصاف اس بل کو اصولی طور پر مسترد کرتی ہے۔سید نوید قمر نے کہا کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم ایک متعصبانہ بل ہے۔

پورے پاکستان میں جتنے بھی ٹیکس دینے والے ہیں انہوں نے نہیں دیا تو انہیں چوروں کی کیٹیگری میں ڈالا جا رہا ہے اور ایک کیٹیگری کو یہ موقع دیا جا رہا ہے کہ وہ کالے دھن کو سفید کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 23 یہ کہتا ہے کہ تمام ملک کے شہری برابر ہیں۔ الیکشن سے پہلے یہ موقع فراہم کیا جا رہا ہے مخصوص لوگوں کو کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے کالے دھن کو سفید کر لیں۔

کسی بھی فن میں مہارت رکھنے والوں کو کوئی موقع نہیں اور زاعت کے شعبے سے وابستہ افراد کو بھی کوئی مراعات نہیں دی گئیں ۔ ہم اگر کسی کو چھوٹ دیتے ہیں تو ہم موجودہ ٹیکس دینے والوں کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ وہ مزے میں رہے جنہوں نے ٹیکس نہیں دئیے اور حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے اور ان کو ایک فیصد پر ٹیکس دینے کی بات کی گئی اور باقی سب معاف اور حکومت کہہ رہی ہے کہ یہ ٹیکس بڑھانے کی سکیم ہے۔

لوگ پھر ٹیکس نہیں دیں گے۔ کچھ لوگوں کو اپنا پیسہ محفوظ کرنے کیلئے کم وقت میں موقع دیا جا رہا ہے ۔ بنک ٹرانزکشن پر 0.6 فیصد عوام پر بہت بڑا ظلم ہے اور وہ تاجر بنکنگ سسٹم سے نکل جائے گا تب منی لانڈرنگ ہوتی ہے اس ٹیکس میں ڈرگ اسمگلرز ‘ چور اور پارلیمان کے ممبران ایک ہی کیٹیگری میں آتے ہیں اور پارلیمان کے ممبران کو بھی اس میں شامل کرنا اس ایوان کی تذلیل ہے۔

ممبران میں تو وزیر اعظم بھی آتے ہیں وزراء بھی آتے ہیں۔ یہ ایک اختیار ی قانون سازی ہو رہی ہے۔ اس بل کو عدالتو ں میں چیلنج کیا جائے اور وکلاء ہی اس کو چیلنج کر دیں۔ مل کر بیٹھ کر اس معاملہ کو حل کرنا چاہیے اور آج چھوٹے اور بڑے تاجروں میں تفریق نظر آ رہی ہے۔ آج بھی ٹیکس فائلر 10 لاکھ کے قریب ہیں اور وہ ضروری نہیں کہ وہ ٹیکس دینے والے بھی ہوں اور آج بھی حکومت کے پاس وقت ہے کہ وہ نظر ثانی کرے۔

سپیکر جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ 22 منٹ ہو گئے ہیں باقی ممبرز نے بھی بات کرنی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میری آواز 80 لاکھ ووٹرز کی آواز ہے اگر میرے منہ اس طرف جاتاہے تو درمیان میں پردہ لگا دیں ایف بی آر ایک ایسا جلاد ہے جو ہر کسی کی جیب میں آسانی سے ہاتھ ڈال دیتے ہیں اور عوام کے پیسوں کو پھر بیرون ملک بنکوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔

جب تک ایف بی آر کے ذہنی اور انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی نہیں آئے گی نجکاری کسی بھی معاملے کا حل نہیں ہے۔ ہم حکومت کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں اور یہ ناقص قانون سازی عوام پر مسلط نہ کی جائے۔ عبدالرشید گوڈیل نے کہاکہ ہماری بدقسمتی ہے کہ حکومتیں زمینداروں اور تاجروں کو چھوٹ دے دیتے ہیں ’’کدی تہاڈی وار کدی ساڈی وار‘‘ نے غریب عوام کو مسل دیا ہے۔

صرف اڑھائی لاکھ لوگ ٹیکس دے رہے ہیں۔ غریب آدمی آج ٹیکس دے رہا ہے تو اگر امیر نہیں دے گا تو پھر غریب بھی نہیں دے گا۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں معاشی پالیسی بنائی جائے جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے ان کو کیوں چھوٹ دے رہے ہیں۔ 10 سے 12 بلین ڈالر کی لیویز نہیں ملتی او راسے 7 بلین کا بتایا جاتا ہے۔ 0.6 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس سے بلیک مارکیٹنگ بڑھی ہے۔

ایم کیو ایم اس سکیم کو مسترد کرتی ہے۔ پاکستان کا 80فیصد ٹیکس کراچی کے تاجر دیتے ہیں، پاکستان کی معیشت کا خیال کسی نے نہیں رکھا، صرف اپنی سیٹوں کا خیال رکھا جا رہا ہے، ہم نے اپنے ووٹرز کو خوش کرنے کیلئے معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا، وزیراعظم کو ایوان میں آنا چاہیے۔ صاحبزادہ طارق اﷲ نے کہا کہ اس بل کا اس ایوان میں لانا اپنے الفاظ سے روگردانی کرنا ہے اور یہ قول و فعل میں تضاد ہے، وزیراعظم اپنے خاندان کے ٹیکس دینے کا ریکارڈ اس ایوان میں لائیں، مگر ایسا اس ملک میں کبھی بھی نہیں ہوا، ایف بی آر نے اسٹیٹ بینک سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو اسٹیٹ بینک نے جو معلومات دیں ان میں سے 75فیصد لوگ پنجاب سے تھے جنہوں نے کروڑوں کی ٹرانزیکشن کی اور باقی 25فیصد دیگر صوبوں سے تھے، ایف بی آر نے ان سے پوچھا کہ یہ ٹرانزیکشن کیسے ہو رہی ہے تو ایک کہرام برپا ہو گیا ستمبر 2015 تک پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 28ہزار ارب سے زیادہ ہے، حکومت اس بل کے ذریعے مخصوص لوگوں کو فائدہ دے رہے ہیں، جماعت اسلامی اس بل کو مسترد کرتی ہے، چوروں کو فائدہ نہ دیا جائے۔

ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ اس وقت حزب اختلاف کی تقریروں کو کون سن رہا ہے اور اس وقت وزیر خزانہ کہاں ہیں، ان کیلئے سوئٹزر لینڈ جانا اہم ہے، یہی حال وزیراعظم کا ہے اور فاصلہ کم ہے وزیراعظم ہاؤس اور پارلیمان کا مگر وزیراعظم بیرونی دوروں پر موجود ہیں، آج اس ایوان میں وزیراعظم، وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ کیوں نہیں آئے، ہم نے اس اہم مسئلے پر 3گھنٹے بھی گفتگو نہیں کی، ڈیڑھ سال میں خزانہ کمیٹی کا چیئرمین ہی نہیں تھا،8ایمنسٹی اسکیموں میں 15 ارب روپے کی بھی وصولی نہیں ہوئی ہے اور ان سکیموں کے ذریعے ملکی خزانے کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، 1997 میں اس اسکیم کے تحت 14کروڑ روپے ٹیکس اکٹھا ہوا۔

خواجہ سہیل منصور نے کہا کہ اس ملک میں بیکار سکیمیں لا کر مخصوص لوگوں اور آئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلئے یہ قوانین لائے جاتے رہے ہیں، حکومت خود ڈالر کی ہیر پھیر کر رہی ہے۔ قیصر احمد شیخ نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کے کام نہ کرنے کی باتیں درست نہیں ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ حکومت نے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی اور چھ ماہ تک تاجروں سے گفتگو ہوئی، پاکستان میں جی ڈی پی اور ٹیکس کی شرح کم ہے ود ہولڈنگ ٹیکس کو 0.6 فیصد کیا گیا تھا مگر احتجاج پر 0.3 فیصد کیا گیا،0.3فیصد کیا گیا،7لاکھ سے 11لاکھ ٹیکس پیئرز کی طرف جا رہے ہیں، تاجر جب ٹیکس نیٹ میں آئیں گے تو پاکستان جی ڈی پی اور ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہو گا، یہ ایمنسٹی اسکیم بل نہیں بلکہ ٹریڈرز کو ٹیکس کے دھارے میں لانے کیلئے لائی جا رہی ہے، ہم نے کسی کو بھی قانون میں چھوٹ نہیں دی ہے، کسی کو آزادی نہیں ، حکومت اپنی رٹ قائم کرنا چاہتی ہے، 68سالوں سے جو لوگ ٹیکس نہیں دے رہے تھے ان سے ٹیکس وصول کریں گے اور تین سال میں تمام تاجر اس ٹیکس نیٹ میں آئیں گے، اپوزیشن یہ چاہتی ہے کہ جو ماضی کی روایات ہیں وہ برقرار رہیں مگر موجودہ حکومت ان لوگوں سے عزت کے ساتھ ٹیکس وصول کرنا چاہتی ہے، ہم 68سال کی غلطیوں کو درست کرنے جا رہے ہیں، یہ قانون کسی کو بھی معافی نہیں دے گا