شجاعت عظیم کو وزیر اور انچارج سول ایوی ایشن کے طور پر بھی کام کرنے سے روک دیا گیا

اٹارنی جنرل سے مشیر ہوا بازی کو کورٹ مارشل کے باوجود عوامی عہدہ دینے کی اصل سمریاں اور ان کے آئینی و قانونی اثرات بارے 16 فروری تک جواب سرکاری ملازم کو برخواستگی کے بعد کوئی عوامی عہدہ نہیں دیا جا سکتا ،جسٹس امیر ہانی مسلم کے ریما رکس

جمعہ 22 جنوری 2016 14:23

شجاعت عظیم کو وزیر اور انچارج سول ایوی ایشن کے طور پر بھی کام کرنے سے ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔22 جنوری۔2016ء) سپریم کورٹ نے مشیر ہوا بازی شجاعت عظیم کو وزیر اور انچارج سول ایوی ایشن کے طور پر بھی کام کرنے سے روک دیا ہے اور اٹارنی جنرل پاکستان کو شجاعت عظیم کو کورٹ مارشل کے باوجود عوامی عہدہ دینے کی اصل سمریاں اور ان کے آئینی و قانونی اثرات بارے 16 فروری تک جواب داخل کرانے کا حکم دیا ہے ۔

تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا ہے کہ شجاعت عظیم کے حوالے سے جب حکم دے دیا تھا کہ وہ آزادانہ اختیارات کا استعمال نہیں کریں گے اور وزیر کے عہدے کے برابر سٹیٹس نہیں رکھیں گے تو بدستور یہ اختیار کیوں استعمال کر رہے ہیں ۔ سمریوں میں کورٹ مارشل کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ سرکاری ملازمین کی برخواستگی اور عوامی نمائندوں کی نااہلی دو الگ الگ معاملات ہیں سرکاری ملازم کو برخواستگی کے بعد کوئی عوامی عہدہ نہیں دیا جا سکتا ۔

(جاری ہے)

جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ سمری میں چیف ایگزیکٹو نے شجاعت عظم کی بطور مشیر تعیناتی کی خواہش کا اظہار کیا ہے ۔ چیف ایگزیکٹو سمری دیکھے بغیر تو منظور ی نہیں دے سکتے ۔ جس شخص کا کورٹ مارشل ہو چکا اسے عوامی عہدہ کیسے دیا جا سکتا ہے انہوں نے یہ ریمارکس جمعہ کے روز دیئے ہیں ۔اٹارنی جنرل پاکستان سلمان بٹ پیش ہوئے اور کہا کہ عدالت کی جانب سے مناسب وقت نہیں دیا گیا کہ درخواست دائر کر سکے ۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ 4 الزامات ہیں جن کا جواب داخل کرانا تھا ۔ 3 کا ازسرنو جائزہ لیا گیا اور اس میں گلٹی پایا گیا اور ان کو سروس سے فارغ کیا گیا ہم وہ سمری چاہتے ہیں کہ جس کے تحت ان کو ایڈوائزر مقرر کیا گیا تھا ہمیں یہ بھی دکھایا جائے کہ جب وزیر اعظم کو معلوم ہی نہیں ہے تو سمری کا پیراگراف کس طرح سے مٹایا گیا ہے کابینہ سیکرٹری نے یہ سب کیسے کیا ہے ۔

اس بارے میں بتایا جائے ۔ سمری میں بہت کچھ مختلف ہے آپ چاہتے ہیں کہ سمری کس طرح سے بھیجی جاتی ہے سیکرٹری سمری بناتا ہے جو اسے وزیر اعظم کو بجھوایا جاتا ہے ۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ سب کابینہ سیکرٹری نے کیا ہے یہ واحد ڈاکومنٹ ہے جو میرے پاس ہے ۔ وزیر اعظم کے سیکرٹری نے ان کو وزیر اعظم کو پیش کیا ۔ اے جی نے کہا کہ اس کا جائزہ لے لیتے ہیں جسٹس ہانی نے کہا کہ ہم نے محسوس کیا ہے کہ سمری میں کورٹ مارشل کی بات نہیں کی گئی ہے اس کو کابینہ اور وزیر اعظم سیکرٹری نے بھی واضح نہیں کیا ہے ۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم بھی اس معاملے سے آگاہ تھے ۔ جسٹس نے کہا کہ آخر یہ خواہش کس کی تھی کہ شجاعت عظیم مشیر وزیر اعظم مقرر کیا جائے ۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد بھٹی نے نے کہا کہ ایڈیشنل سیکرٹری برائے کابینہ نے جو سمری ارسال کی تھی وہ بھی وہی ہے جو آپ کے پاس ہے ۔ اے جی نے کہا کہ میں سمری کا جائزہ لے لیتا ہوں ۔ جسٹس ہانی مسلم نے کہا کہ ہم نے دونوں سمریوں کا جائزہ لے کر اصل سمریاں منگوائی تھیں ایک اور ڈاکومنٹ بھی موجود ہے جس میں وزیر اعظم پاکستان کو بھی سمری کے حوالے سے آگاہ کیا گیا تھا۔

اے جی نے اس ڈاکومنٹ کے دیکھنے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا ۔ بار بار ڈاکومنٹ دیکھنے کی بات کرتے رہے جسٹس ہانی مسلم نے کہا کہ ہم معاملے کو آگے بڑھائیں گے ۔ اے جی نے کہا کہ وہ اس کے لئے تیار ہیں ۔ عدالت نے کہا کہ سول ایوی ایشن سمیت دیگر تین سمریاں پیش کی جائیں ۔ یہ سمریاں کس نے بنائی ہیں اور کس کے کہنے پر تیار کی گئی ہیں سب کا جائزہ لینا چاہتے ہیں کیا آپ سمریوں کی موجودگی یا ان کو دیکھ کر معاملے کو آگے بڑھائیں گے اے جی نے کہا کہ سمریاں آنے دیں پھر کارروائی کریں ۔

اے جی نے کہا کہ میں سماعت ملتوی کرنے کی درخواست نہیں کرنا چاہتے عدالت نے کہا کہ یہ آپ پر ہے کہ آپ کس طرح کام کرنا چاہتے ہیں ہم اس سلسلے میں واقعی طور پر
ڈسٹرب ہوتے ہیں اس طرح کام اچھے نہیں ہیں اس طرح کے کاموں کے اثرات بھی اچھے نہیں ہوتے۔ ایک کمیٹی بھی بنائی گئی تھی اور اس بارے آزاد رائے بھی مانگی گئی تھی اس پر اے جی نے کہا کہ انہیں معلوم نہیں ۔

جسٹس ہانی مسلم نے کہا کہ وہ پی آئی اے کے پرائیویٹ معاملات بھی دیکھتے رہے ہیں حالانکہ ہم نے روکا تھا اے جی نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے اور نہ ہی انہوں نے ایسا کیا ہے ان کے خلاف کوئی اور مقدمہ نہیں ہے ۔عدالت نے کہا کہ انہوں نے ایک پریس کانفرنس کی ہے جب ایک معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے تو پھر انہوں نے کس طرح سے پریس کانفرنس اور انٹرویوز میں ان معاملات پر بات کر سکتے ہیں یہ سب پرنٹ میڈیا میں آیا ہے ہم اس پر انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنا چاہتے ۔

مخدوم علی نے کہا کہ وہ اس بات سے آگاہ نہیں ہیں ۔انہوں نے یہ سب استعفے دینے کے بعد کہا ہے حالانکہ وہ اس طرح کی پریس کانفرنس اور انٹرویو دینے کے مجاز نہ تھے مخدوم علی خان نے کہا کہ آئندہ سے ایسی کوئی شکایت نہیں ہو گی جسٹس دوست نے کہاکہ چیف ایگزیکٹو کی جانب سے سمری میں ان کے مشیر کے طور پر تعیناتی کی خواہش کا اظہار کیا ہے ۔مخدم علی خان نے کہا کہ کابینہ سیکرٹری وزیر اعظم نہیں ہوتا اور یہ سیاسی معاملات ایسے ہی چلتے ہیں عدالت کے حکم پر انہوں نے استعفیٰ دیا تھا بعدازاں انہیں خصوصی مشیر مقرر کیا گیا تھا یہ سب عوام کے لئے کیا گیا تھا اصل معاملہ یہ ہے کہ ایک شخص جس کا کورٹ مارشل ہو چکا ہو کیا وہ عوامی عہدے کے لئے اہل ہو سکتا ہے یا نہیں ۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ایئرفورس کی ملازمت سے برخواستگی کے بعد وہ اس عہدے پر تعینات نہیں ہو سکتے تھے جس طرح سے سمری ارسال کی گئی ہے وہ تمام تر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے سمری سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حقائق معلوم ہونے کے باوجود انہیں تعینات کیا گیا ۔ وزیر اعظم نے ان سمریوں کی ایڈوائس کر رکھی ہے ۔دیکھنا یہ ہو گا یہ فیصلہ قانون کے مطابق تھا یا نہیں ۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ کورٹ مارشل کے حوالے سے کوئی شک و شبہ نہیں ہے تاہم اب اس کے اثرات دیکھنا ہوں گے ۔ تکنیکی اعتبار سے اس کا جائزہ لینا ہو گا اور نتائج تک پہنچنا ہو گا سمری کے اثرات کا بھی جائزہ لینا ہو گا ۔ اے جی نے کہا کہ کچھ وقت دیں آئین و قانون کو دیکھ کر ہی اس کا جواب دے سکوں گا کہ آیا کورٹ مارشل کے کیا اثرات ہیں اور کیا ایسے شخص کو عوامی عہدے پر رکھا جا سکتا ہے ۔

عدالت نے کہا کہ اس کو اگلے ہفتے بنچ کی دستیابی پر رکھ لیتے ہیں ۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر ایک شخص جس کا کورٹ مارشل ہو چکا ہو اور سروس سے فارغ ہوا ہو وہ عوامی عہدے کے لئے نہیں آ سکتا تو پھر اس کا اطلاق وفاقی وزراء سمیت تمام ارکان پارلیمنٹ پر بھی ہو گا جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ منتخب ارکان اسمبلی اور سرکاری نوکری سے فراغت دو الگ الگ معاملات ہیں اے جی نے کہا کہ دو سوالات ہیں جس قانون کے تحت وہ فارغ کئے گئے اس کے اثرات دیکھنا ہوں گے جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اس کا اطلاق وزیروں پر نہیں ہوتا ۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ جو بات آپ کر رہے ہیں اس کے اثرات وزیر اعظم تک بھی جائیں گے ۔ اس پر جسٹس ہانی مسلم نے کہ اکہ اس لئے تو ہم آپ کی معاونت چاہتے ہیں مخدوم علی خان نے کہا کہ آرٹیکل 63 کے تحت اس معاملے کا جائزہ لینا ہو گا ایک شخص غیر متوقع طور پر عوامی عہدے پر آیا ہے جائزہ لینا ہو گا کہ آیا یہ الزام درست ہے یا نہیں ۔جسٹس دوست نے کہا کہ ایک سرکاری ملازم جو مس کنڈکٹ کی وجہ سے فارغ کر دیا جائے کیا اسے اتنے بڑے عوامی عہدے پر تعینات کیا جا سکتا ہے ؟مخدوم نے کہاکہ اسے سول سرونٹ کے طور پر تعینات نہیں کیا جا سکتا جسٹس دوست نے کہا کہ مشیر اور معاونین خصوصی کو بھی سروس آف پاکستان قرار دیا گیا ہے ۔

اے جی نے بتایا کہ انہوں نے ایئرمارشل کا حکم نامہ ریکارڈ میں رکھا ہے جسٹس دوست نے کہاکہ ایئرفورس میں کتنے سال خدمات سرانجام دی ہیں اس حوالے سے بتایا جائے کہ انہیں کس طرح سے فارغ کیا گیا عام طریقے سے یا کسی اور وجہ سے فارغ کیا گیا ہے ۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ سب انتظامی معاملات ہیں اور سالوں سے کئے جا رہے ہیں ۔مخدوم علی خان نے
کہا کہ ضیاء الحق کے دور میں فارغ کئے گئے ملازمین کو بے نظیر بھٹو دور میں بحال کیا گیا تھا جسٹس دوست نے کہا کہ ان کا کورٹ مارشل ہوا ہے اور مارشل لاء کورٹس نے یہ فیصلہ دیا ہے جبکہ ضیاء الحق کا آرڈر مارشل لاء آرڈر تھا دونوں میں فرق ہے ۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ ہائی کورٹ نے اس کو انتظامی معاملہ قرار دیا۔ محمود اختر نقوی نے کہا کہ عدالت نے شجاعت عظیم کو کام سے روکا تھا وزیر اعظم کے صاحبزادے حسن لفٹ میں پھنس گئے تھے اور شجاعت عظیم استعفیٰ دفے کر اس کی رپورٹ کیسے طلب کر سکتے تھے ۔ نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو بھی دیا ہے عدالت نے کہا کہ ہم نے انٹرویو سے نہیں روکا مگر عدالتی معاملات پر بات نہیں کر سکتے ۔

بجلی بند ہو جاتی ہے تو اس حوالے سے کیا کر سکتے ہیں اگر وہ آزادانہ فیصلہ کریں گے تو ان کے خلاف کارروائی کریں گے ۔ عدالت نے محمود اختر نقوی کی نئی درخواست پر شجاعت عظیم کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں عدالت نے حکمنامہ تحریر کرایا کہ درخواست گزار نے اضافی ڈاکومنٹ داخل کئے ہیں ان کو نمبر لگایا جائے اے جی کی جانب سے بھی دائر کردہ ڈاکومنٹ کو سی ایم اے کے طور پر نمبر لگایا جائے ان ڈاکومنٹ میں شجاعت عظیم کی برخواستگی بارے تفصیلات دی گئی ہیں ۔

ایک اتھارٹی ایئرفورس نے احکامات جاری کئے تھے اور شجاعت عظیم کو نوکری سے برخواست کیا تھا ۔ اصل سمری پیش کی جائے جس پر وزیر اعظم نواز شریف نے شجاعت عظیم کے خصوصی معاون کے طور پر تعینات کرنے اور اختیارات دینے بارے دستخط کئے گئے تھے ۔ ہم نے آخری سماعت پر ایک عبوری حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں شجاعت عظیم کو آزادانہ فیصلے کرنے سے روکا تھا ۔

انہیں سول ایوی ایشن اتھارٹی کی دیکھ بھال کا چارج دیا گیا تھا اے جی نے کہا کہ ان کو محدود اختیارات دیئے گئے تھے وہ ملازمین بارے کوئی اقدام نہیں کر سکتے تھے عدالت نے کہا کہ یہ ان کو اضافی اختیارات دیئے گئے تھے ۔ 20 جنوری 2014 کا جاری کردہ نوٹیفیکیشن بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے۔اے جی نے بتایا کہ سیکرٹری سول ایوی ایشن اتھارٹی نے براہ راست وزیر اعظم کو سمری ارسال کی تھی عدالت نے کہا کہ آپ کی اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کو وزیر کے برابر اختیار دیا گیا کہا لکھا گیا ہے کہ وہ وزیر کے طور پر کام نہیں کریں گے کیا انہیں وزیر کا سٹیٹس حاصل ہے یا نہیں ؟ وہ بطور وزیر کے کام نہیں کر سکتے ہیں ۔

جسٹس دوست محمد نے کہا کہ سیکرٹری سول ایوی ایشن کے ذریعے شجاعتعطیم کا سمری بجھوانا کیا یہ اختیار وفاقی وزیر کا نہیں ہے ؟ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ بعد میں وزیر کے اختیارات لے لئے گئے تھے اگر یہ اختیار لے لیا گیا تھا تو وہ پھر کس طرح سے یہ اختیار استعمال کر سکتے ہیں ۔مخدوم علی خان نے کہا کہ سول ایوی ایشن کا چارج وزیر اعظم کے پاس ہے وہ کسی اور کو یہ اختیار تفویض کر سکتے ہیں ۔