شہزادی ڈیانا کی مہربانیوں کے باعث دوبارہ زندہ بچ جانیوالا نوجوان دربدر

آنجہانی شہزادی نے تقریبا 20 سال پہلے دل کے عارضے میں مبتلاء افریقی شہری کی زندگی بچائی تھی ڈیانا آج زندہ ہوتیں تو مجھے کبھی غربت میں نہ رہنے دیتیں ،فوری برطانیہ بلا لیتیں،آرنوردوابمو

منگل 26 جنوری 2016 11:50

شہزادی ڈیانا کی مہربانیوں کے باعث دوبارہ زندہ بچ جانیوالا نوجوان دربدر

برلن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔26 جنوری۔2016ء) شہزادی ڈیانا کی مہربانیوں کے باعث دوبارہ زندگی کی طرف لوٹنے والا نوجوان دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گیا ،آنجہانی شہزادی ڈیانا نے تقریبا 20 سال پہلے افریقی ملک کیمرون سے تعلق رکھنے والے ایک سات سالہ بچے کی زندگی بچائی تھی جو دل کے عارضے میں مبتلا تھا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 1996ء میں آرنود وابمو نامی اس نوجوان کی عمر صرف سات سال تھی۔

یہ نوجوان دل کے عارضے میں مبتلا تھا اور اس کے دل میں سوراخ تھا۔ اپنے اس عارضے کی وجہ سے وہ چل بھی نہیں سکتا تھا۔ برطانوی شہزادی ڈیانا کو جب آرنود وابمو کی اس حالت کا پتا چلا تو اسے خصوصی طور پر برطانیہ لایا گیا تا کہ اس کا علاج کیا جا سکے۔آرنود وابمو ہیرفیلڈ ہسپتال میں زیر علاج رہا جہاں اس کا آٹھ گھنٹے طویل آپریشن کیا گیا۔

(جاری ہے)

اس آپریشن کے دوران آنجہانی شہزادی ڈیانا تمام وقت موجود رہیں۔

آرنود وابمو جب اپنے مرض سے صحت یاب ہوا تو لیڈی ڈیانا نے اس سے اپنے محل میں بھی ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر ایک تصویر بھی کھینچی گئی جس میں لیڈی ڈیانا نے آرنود وابمو کو گود میں اٹھایا ہوا ہے۔ صحت یابی کے بعد آرنود وابمو کو واپس کیمرون بھیج دیا گیا تھا۔ اگلے 18 سال اس نوجوان نے کیمرون میں انتہائی غربت میں گزارے۔تاہم اب ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آرنود وابمو اب تارک وطن کی حیثیت سے جرمنی میں اپنی زندگی گزار رہا ہے اور دوبارہ برطانیہ میں داخل ہونے کا متمنی ہے۔

آرنود وابمو کا کہنا ہے کہ اگر شہزادی ڈیانا آج زندہ ہوتیں تو اسے کبھی اس حال میں نہ رہنے دیتیں اور اسے فوری برطانیہ بلا لیتیں۔اس نے بتایا کہ وہ شہزادی ڈیانا کی تصویر ہمیشہ اپنے پاس رکھتا ہے اور اسے اپنی والدہ سمجھتا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں آرنود وابمو نے بتایا کہ 2014ء میں اس نے غربت سے تنگ آ کر دوبارہ برطانیہ جانے کا فیصلہ کیا اور کٹھن سفر پر نکل پڑا۔ غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے کیلئے اس نے سمگلروں کا سہارا لیا اور تقریبا 13 مہینے مشکلات جھیلنے کے بعد بالاخر جرمنی پہنچ گیا جہاں اسے آج کل ایک مہاجر کیمپ میں رکھا گیا ہے۔ اسے امید ہے جب برطانوی عوام کو جب اس کا پتا چلے گا تو وہ ضرور اس کی مدد کیلئے آگے بڑھیں گے

متعلقہ عنوان :