گیس کے نقصانات کی حقیقی شرح 4.5 فیصد کی بجائے 11 فیصد سے زائد ہے ٗ اوگرا چیئر مین کے بیان پر کمیٹی کا تشویش اظہار

وطن کارڈ کے ذریعے دی جانے والی امداد کے طریقہ کار کے بارے میں پی اے سی کو بریفنگ دی جائے ٗپبلک اکاؤنٹس کمیٹی

بدھ 27 جنوری 2016 18:23

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔27 جنوری۔2016ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) میں چیئرمین اوگرا سعید احمد نے کہا ہے کہ گیس کے نقصانات کی حقیقی شرح 4.5 فیصد کی بجائے 11 فیصد سے زائد ہے ٗ گیس کھینچنے کے لئے کمپریسر کا استعمال غیر قانونی اور ناجائز عمل ہے جس پر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ اوگرا اپنا کردار اداکرے ۔

اجلاس بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں پی اے سی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت ہوا جس میں پی اے سی کے ارکان شیخ رشید احمد، ڈاکٹر درشن، ڈاکٹر عارف علوی، شفقت محمود، پرویز ملک، جنید انوار چوہدری، ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو، سردار عاشق حسین گوپانگ، محمود خان اچکزئی، میاں عبدالمنان، راجہ جاوید اخلاص، شاہد اختر علی اور شیخ روحیل اصغر کے علاوہ متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں کابینہ ڈویژن کے 2012-13ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ ایک آڈٹ اعتراض کے جائزہ کے دوران آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ پیپلز ورکس پروگرام II کا آڈٹ جاری ہے اور اس سلسلے میں رپورٹ جلد سامنے آ جائے گی۔ راجہ جاوید اخلاص نے کہا کہ ملک کے تقریباً 40 اضلاع میں ان ترقیاتی سکیموں، جن پر 80 سے 90 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے، کے لئے فنڈز جاری کر کے انہیں مکمل کیا جائے۔

آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ 2010-11ء میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور سیلاب متاثرین کے لئے وطن کارڈ کے ذریعے دی جانے والی امداد کے فنڈز استعمال نہیں ہو سکے۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ وطن کارڈ کے ذریعے دی جانے والی امداد کے طریقہ کار کے بارے میں پی اے سی کو بریفنگ دی جائے۔ آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ لاہور کالج آف آرٹس کے گرلز ہاسٹل کی تعمیر میں پی سی ون سے ہٹ کر کام کرایا گیا۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اس منصوبہ کی تعمیری لاگت میں 2440 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ اس منصوبہ کی وزارت کی سطح پر تحقیقات ہونی چاہئے۔ لاہور کالج آف آرٹس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس کی تحقیقات کے لئے کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ گریڈ 20 کی سطح کے نیسپاک کے افسران پر مشتمل کمیٹی بنا کر تحقیقات کرائی جائیں۔

سیکریٹری کابینہ ڈویژن نے کہا کہ نیسپاک اور پی ڈبلیو ڈی کے افسران پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے گی۔ سردار عاشق حسین گوپانگ نے تجویز دی کہ کمیٹی میں پی اے سی کا نمائندہ بھی شامل کیا جائے۔ سید خورشید احمد شاہ نے پی اے سی کے ارکان شفقت محمود اور سردار عاشق حسین گوپانگ کو ہدایت کی کہ موقع پر جا کر کام کا معیار بھی دیکھا جائے۔ پی اے سی نے مئی 2005ء میں ایل پی جی سلنڈر دھماکے کے متاثرین کو اب تک امداد نہ ملنے پر برہمی کا اظہار کیا۔

چیئرمین اوگرا نے کہا کہ تین لاکھ روپے کی رقم ادا کر دی گئی تھی، باقی جاں بحق ہونے والے افراد کے متعلقہ ڈی سی او نے ہمیں کوائف نہیں بھجوائے۔ چیئرمین اوگرا پی اے سی کو ایل پی جی سلنڈر دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کی تفصیلات نہیں بتا سکے جس پر پی اے سی نے ہدایت کی کہ تین روز میں پی اے سی کو تمام تفصیلات فراہم کی جائیں۔ ایک اور آڈٹ اعتراض کے جائزہ کے دوران چیئرمین اوگرا نے کہا کہ اس وقت یو ایف جی کی حقیقی شرح 11 فیصد ہے۔

ہم یو ایس ایڈ کے ذریعے اس کی اسٹڈی کرا رہے ہیں۔ ان نقصانات میں امن و امان کی صورتحال، گیس کی چوری اور دیگر وجوہات شامل ہیں۔ شیخ رشید احمد کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ بعض علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے گیس لائن اڑا دی جاتی ہے ، بعض صارفین گیس لائن پنکچر کر کے گیس لے رہے ہیں ،اسی طرح بعض صارفین کنکشن ہونے کے باوجود دیگر ذرائع سے اپنا کام چلا رہے ہیں۔

شیخ رشید احمد نے کہا کہ چین کا گیس کھینچنے والا آلہ آجکل بہت مشہور ہے، یہ محلوں میں لڑائی کا باعث بنا ہوا ہے۔ چیئرمین اوگرا سعید احمد نے کہا کہ گیس کھینچنے کے لئے کمپریسر کا استعمال غیر قانونی اور ناجائز عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملہ کا سدباب ریگولیٹری اتھارٹی کا نہیں بلکہ گیس کمپنیوں کا کام ہے۔ شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ چیئرمین اوگرا تفصیلات سے آگاہ نہیں ہیں۔

گیس کمپریسر اور گیس چوری کے بارے میں دونوں گیس کمپنیوں کے منیجنگ ڈائریکٹروں سے تفصیلات حاصل کر کے پی اے سی کے سامنے آنی چاہئیں۔ پی اے سی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ اوگرا ریگولیٹری اتھارٹی ہے اور یہ بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ گیس کے نقصانات کے حوالے سے اوگرا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اوگرا نے تحریری طور پر پی اے سی کو بتایا ہے کہ وہ وفاقی حکومت یا کسی بھی ادارے کو جوابدہ نہیں ہے،اگر ایسا ہے تو پھر یہ یہاں کیا کرنے آئے ہیں۔ شفقت محمود نے کہا کہ اوگرا ایکٹ کی تشریح ہونی چاہئے۔