سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوارڈنیشن کا اجلاس

پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل بل 2015 ، جعلی ڈاکٹروں ،عطائیوں کے خلاف کی گئی کارروائیوں ، فاٹا میں صحت کے شعبے کی صورتحال ، ڈاکٹروں کی کمی ،صحت کے شعبے سے متعلق دیگر اہم امور کا بغور جائزہ لیا

جمعہ 29 جنوری 2016 19:15

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔29 جنوری۔2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ، ریگولیشن اینڈ کوارڈینشن کا اجلاس سینیٹر سجاد حسین طور ی کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔کمیٹی نے پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل بل 2015 ، جعلی ڈاکٹروں اور عطائیوں کے خلاف کی گئی کارروائیوں ، فاٹا میں صحت کے شعبے کی صورتحال ، ڈاکٹروں کی کمی اور صحت کے شعبے سے متعلق دیگر اہم امور کا بغور جائزہ لیا ۔

پاکستان میڈیکل ریسر چ کونسل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے ادارے کے اغراض و مقاصد، کام کے طریقہ کار اور اب تک کی ہونے والی تحقیق کے علاوہ کالے یرقان اور دیگر امراض کے اعداد وشمار وغیرہ سے آگاہ کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ پورے ملک میں 12 ریسرچ سنٹر کام کر رہے ہیں جبکہ کراچی اور لاہور میں خصوصی ریسرچ سنٹر بھی قائم کیے گئے ہیں ۔

(جاری ہے)

جس پر کمیٹی نے تجویز دی کہ خصوصی سنٹرز پورے ملک میں بنائے جائیں اور تحقیق کے شعبے کو مزید وسعت دی جائے ۔

سینیٹر کریم احمد خواجہ نے کہا کہ ان خصوصی سینٹرز کا نیٹ ورک بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سہولت فراہم ہو سکے ۔کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ ان سنٹرز کی افادیت کو سامنے لانا ضروری ہے ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی ایم آر سی قومی اور بین الاقوامی سطح پر اداروں کے ساتھ معاونت کر رہی ہے اور مختلف قسم کی بیماریوں و امراض کی تحقیق کے سلسلے میں معاونت کا کام جاری ہے ۔

بتایا گیا کہ 2014 میں ہیپاٹائیٹس کے حوالے سے کیے گئے سروے سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں اس کی شرح کافی زیادہ ہے اور فاٹا میں بھی اس کی شرح بڑھ رہی ہے۔2015 میں 11 ملین لوگ متاثر ہوئے جس کی بڑی وجہ استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال غیر معیاری طریقوں سے انتقال خون ، سرجری اور دانتوں کے اوزاروں کا صاف نہ ہونا وغیر ہ وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے کالے یرقان کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے ادارے کی سربراہ نے بتایا کہ اس وقت پورے ملک میں 25 اضلاع کو ہائی رسک اضلاع قرار دیا جا چکا ہے ۔

جن میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاوہ پنجاب میں ڈی جی خان ، رحیم یار خان ، جھنگ ، راجن پور، وہاڑی ، حافظ آباد، پاکپتن ، بہاولنگر ، اوکاڑہ ، سندھ میں خیر پور ، گوٹھکی ، سانگھڑ ، دادؤ، خیبر پختونخوا میں اپر دیر ، لوئر دیر، ہنگو، اور سوات جبکہ بلوچستان میں موسیٰ خیل ، لورا لائی ، سبی ، جعغر آباد، بارکھان، اورژوب وہ اضلاع ہیں جہاں پر ہیپاٹائیٹس بی اور سی کی شرح زیادہ ہے ۔

کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں قومی سطح پر آگاہی پھیلانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام میں شعور اجاگر کیا جا سکے ۔کمیٹی نے پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل بل 2015کے حوالے سے فیصلہ کیا کہ اس بل کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد کمیٹی کے اگلے اجلاس میں منظوری کیلئے زیر غور لیا جائے گا۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ پی ایم آر سی کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی افرادی قوت کو بڑھایا جائے اور اس کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں تاکہ ادارے کو زیادہ سے زیادہ مفید بنایا جاسکے ۔

کمیٹی نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کیلئے چیئرمین سینیٹ کی جانب سے ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی کی بطور ممبر نامزدگی کی بھی منظوری دی ۔جعلی ڈاکٹروں عطائیوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے کمیٹی چیئرمین سجاد حسین طوری نے کہا کہ جعلی ڈاکٹروں اور عطائیوں کے خلاف سخت سخت سے کارروائی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ نہیں کھیلنے دیں گے اور یہ کہ ان کے خلاف پی ایم ڈی سی کے ہاتھ بھی مضبو ط کرنے کی ضرورت ہے ۔

ا نہوں نے تجویز دی کہ قوانین میں ترامیم اور سزاؤں میں مزید سختی لائی جائے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کوارڈنیشن بڑھائی جائے ۔انہوں نے یہ بھی کہا اگر کسی سطح پرقوانین میں ترامیم کی ضرورت ہے تو وزارت اس سلسلے میں سفارشات کمیٹی کے سامنے پیش کرے ۔انہوں نے اس سلسلے میں کمیٹی کی طرف سے بھر پور تعاون کا یقین بھی دلایا ۔ فاٹا میں صحت کی سہولیات کے فقدان اور عوام کو پیش آنے والی مشکلات کے حوالے سے کمیٹی اراکین نے کہا کہ فاٹا میں صحت کا شعبہ پسماندگی کا شکار ہے اور ا س کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔

یہ تجویز دی گئی کہ ڈاکٹروں اور میڈیکل پروفیشنلز کو اچھی تنخواہوں پر فاٹا میں تعینات کیا جائے تاکہ صحت کے سلسلے میں عوام کو درپیش مسائل میں کسی حد تک کمی کی جاسکے ۔ سینیٹر نعمان وزیر نے تجویز دی کہ صحت کی سہولیات کی فراہمی کے سلسلے میں فاٹا میں صوبوں کی نسبت فی کلو میٹر کے حساب سے دگنے فنڈ زفراہم کیے جائیں تاکہ لوگوں کا احساس محرومی ختم کیا جاسکے یہ بھی تجویز دی گئی کہ ہیلتھ کے شعبے کے حوالے سے فاٹا کا اپنا سول اسٹرکچر ہونا چاہیے ۔

آج کے اجلاس میں سینیٹرز حمزہ ، نعمان وزیر خٹک ، ڈاکٹر اشوک کمار، نسیمہ احسان ، خالدہ پروین اور ڈاکٹر کریم احمد خواجہ کے علاوہ وزیر مملکت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز سائرہ افضل تارڑ اور وزارت کے اعلیٰ حکام اور متعلقہ اداروں کے سربراہان نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :