کوئی ریلوے کا پہیہ روکنے کی کوشش کر یگا تو پہیہ اس کے” اوپر“ سے گزر جا ئیگا‘ ملک میں4بار مارشل لاء لگے جنہوں نے جمہوریت کے پر خچے اڑا دیا‘ مصنوعی قیادتوں اور جماعتوں کو جنم دیا جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں‘ کوئی ریلوے کا پہیہ روکنے کی کوشش کر یگا تو پہیہ اس کے” اوپر“ سے گزر جا ئیگا‘جو بات کروں گا بغیر کسی دباؤ کے کروں گا‘ دباؤ کے تحت کام کرتا ہوں اورنہ دباؤ کے تحت فیصلے کرتاہوں چاہے سارازمانہ ایک طرف ہو جائے ‘ سب کو مل کر کام کرنا ہوگا جو پہیہ چلنا شروع ہوا ہے اسے دوڑانا ہوگا‘ میں آج بھی اپنے آپ سے مطمئن نہیں ہوں ‘ تباہی بہت بڑی ہے ایک ادارہ ٹھیک کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگ گیا ہے ” اور کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہے ، نہ گھر باہر اور نہ ہی اپنے کسی کاروبار کے قابل رہے ہیں ‘اپنے مطالبات منوانے کی آڑ میں ٹرینیں روک کر محکمے کو کروڑوں کا چونا لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘ہمیں ریلوے کو خسارے سے نکال کر منافع بخش ادارہ بنانا ہے ‘اگر ہر سال 3سے 4 ارب خسارہ کم نہیں ہو گا تو قوم ڈنڈے لے کر ہمارے پیچھے پڑ جائے گی جو بالکل درست ہو گا ‘ 67سال کی تباہی دو ڈھائی سال میں ٹھیک کر دو تو یہ ممکن نہیں‘میں بھی خواب دیکھتا ہوں دن میں خواب دیکھتا ہوں لیکن جنون اور دلیل بھی ہونی چاہیے ،تدبر اور بصیرت سے کام کرنا پڑتا ہے،وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا پاکستان ریلوے لیبر یونین ،ریل مزدور اتحادکے زیر اہتمام منعقدہ کنونشن سے خطاب

اتوار 31 جنوری 2016 19:09

کوئی ریلوے کا پہیہ روکنے کی کوشش کر یگا تو پہیہ اس کے” اوپر“ سے گزر ..

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 31جنوری۔2016ء) وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ملک میں4بار مارشل لاء لگے جنہوں نے جمہوریت کے پر خچے اڑا دیا‘ مصنوعی قیادتوں اور جماعتوں کو جنم دیا جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں‘ کوئی ریلوے کا پہیہ روکنے کی کوشش کر یگا تو پہیہ اس کے” اوپر“ سے گزر جا ئیگا‘جو بات کروں گا بغیر کسی دباؤ کے کروں گا‘ دباؤ کے تحت کام کرتا ہوں اورنہ دباؤ کے تحت فیصلے کرتاہوں چاہے سارازمانہ ایک طرف ہو جائے ‘ سب کو مل کر کام کرنا ہوگا جو پہیہ چلنا شروع ہوا ہے اسے دوڑانا ہوگا‘ میں آج بھی اپنے آپ سے مطمئن نہیں ہوں ۔

تباہی بہت بڑی ہے ایک ادارہ ٹھیک کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگ گیا ہے ” اور کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہے ، نہ گھر باہر اور نہ ہی اپنے کسی کاروبار کے قابل رہے ہیں ‘اپنے مطالبات منوانے کی آڑ میں ٹرینیں روک کر محکمے کو کروڑوں کا چونا لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘ہمیں ریلوے کو خسارے سے نکال کر منافع بخش ادارہ بنانا ہے ‘اگر ہر سال 3سے 4 ارب خسارہ کم نہیں ہو گا تو قوم ڈنڈے لے کر ہمارے پیچھے پڑ جائے گی جو بالکل درست ہو گا ‘ 67سال کی تباہی دو ڈھائی سال میں ٹھیک کر دو تو یہ ممکن نہیں‘میں بھی خواب دیکھتا ہوں دن میں خواب دیکھتا ہوں لیکن جنون اور دلیل بھی ہونی چاہیے ،تدبر اور بصیرت سے کام کرنا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

وہ اتوار کے روز ایوان اقبال لاہور میں پاکستان ریلوے لیبر یونین ،ریل مزدور اتحادکے زیر اہتمام منعقد کنونشن سے خطاب کررہے تھے خواجہ سعد رفیق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں وزیر اعظم کا شکرگزارہوں کہ انہوں نے پونے تین سالوں میں مجھے فری ہینڈدیا ۔ اس دوران ریلوے کی کوئی فائل وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رکی ورنہ سال سال دو سال فائلیں واپس نہیں آتی تھیں۔

وزارت خزانہ اور منصوبہ بندی نے بھی بہت تعاون کیا ۔ یہ ایسی کوشش ہے جس میں وزیر اعظم سے لے کر ریلوے کے گینگ مین سب کا شیئر ہے ۔ ایک بات بتا دوں کہ سنجیدگی ،دیانت او رمسلسل محنت کے بغیر کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ بہتر زندگی اور آگے جانے کے خواب دیکھنا بری بات نہیں او ریہ بنیادی حق ہے ۔لیکن کیا کیا جائے ریاست پاکستان اپنے وجود سے لے کر آج تک اپنے شہری کو وہ حقوق نہیں لوٹا سکی جو ایک مہذب جدید اور جمہوری ریاست دیتی ہے ۔

اس ملک میں اکیلے ریلوے کے مزدور کی حالت خراب نہیں ہوئی اس میں پاکستان کے غریب لوگ بھی شامل ہیں اس میں ریلوے کے مزدور بھی شامل ہیں باقی محنت کش بھی شامل ہیں یہ رونا ایک ادارے کا رونا نہیں یہ تو پورے پاکستان کا رونا ہے ۔ہم نے ملک تو بنا لیا لیکن اس کی سمت کا تعین نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ جو بات کروں گا بغیر کسی دباؤ کے کروں گا ۔ دباؤ کے تحت کام کرتا ہوں اورنہ دباؤ کے تحت فیصلے کرتاہوں چاہے سارازمانہ ایک طرف ہو ۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی شخص تنہا کسی ادارے کی ترقی کو ممکن نہیں بنا سکتا ۔ آپ کے نمائندوں نے ہمیشہ ریلوے کے مزدووں کی ترجمانی کی اور اپنے لئے کسی طرح کی مراعات نہیں مانگی ۔ کچھ کالی بھیڑیں ہر جگہ ہوتی ہیں لیکن عمومی طورپر آپ کے نمائندے سنجیدہ لوگ ہیں اور جو بات کرتے ہیں اس میں وزن ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ایسا رواج رہا ہے کہ جو ریلوے کا پہیہ جام کر سکتا تھا اس کو مل جاتا تھا اور جو محنت کش پھاؤڑا اور کلہاڑ چلاتے ہیں انہیں کچھ نہ ملے یہ کوئی طریقہ نہیں میں اس کو نہیں مانتا ۔

مرغی کوذبح نہیں کیا جا سکتا ،سارے بھی کہیں گے تو مرغی ذبح نہیں ہو گی اور کوئی کوشش بھی نہ کرے ،انڈا ضرور کھائیں۔ محکمے کو بارہ ، چودہ کروڑ کا چونا لگا کر کہو کہ ہمیں مراعات دو تو ایسا نہیں ہو سکتا ۔جنہوں نے دو بار واردات کرنے کی کوشش کی انہیں دو بار چھوڑا ہے تیسری بار نہیں چھوڑا جائے گا ۔انہیں رعایت دی گئی ہے اور ٹائٹ کیا گیا ہے لیکن میں اس طرح وزارت نہیں کروں گا ‘یہ کیا تماشہ ہے کہ پانچ ، سات مسافروں کو لے کر ٹرین کھڑی ہے اور اور آگے لوگ ناچ رہے ہیں ۔

ہم عزم کرنا ہوگا کہ ہم بہت نرمی سے کام کریں گے ،ادب سے ،جھک کر کام کریں گے ۔مطالبہ کرنا چاہیے کیونکہ مطالبہ کرنے کے لئے ہوتا ہے یہ جمہوری رویہ ہے اس پر غور کرنا چاہیے ،جو ہو سکتا ہے اس پر غور کرنا چاہیے اور جو نہ ہو سکتا ہے اسے بتانا چاہیے لیکن یہ کوئی طریقہ نہیں کہ ٹرین کھڑی کر دو ۔مال گاری اللہ اللہ کر چلی ہے اسے بند کر دو اورمطالبات شروع کر دو ۔

جو چاہتے ہیں بہتر ہے کہ دو چار دن کے لئے جھٹکا دیں لیں او را سکے بعد چلا لیں ۔ میں اور میری مینجمنٹ بہت سوچ سمجھ کر بات کر رہے ہیں ۔ مطالبات ضرور کئے جائیں لیکن کوئی ریلوے کا پہیہ روکنے کی کوشش نہ کرے ،ریلوے کا پہیہ نہیں رکے گا بلکہ جو روکنے کی کوشش کرے گا یہ اسکے اوپر سے گزرجائے گا ۔ محکمے کا حال یہ ہے کہ جدھر بھرتی چاہیے وہاں موجود نہیں جہاں ضرورت نہیں وہاں بھرے ہوئے ہیں۔

یہاں سفارشوں اور پیسوں سے بھرتی ہوئے ۔ رکن قومی اسمبلی آ گیا اور بھرتی کرا دی کہ میں نے اپنا حلقہ سیدھا کرنا ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپنا حلقہ سیدھا کرتے ہوئے ریلوے کا کباڑہ کر دیا ،جو وزیر آتا ہے پانچ ،چھ سو بھرتی کر لیتا ہے ۔ یہ کوئی حلوائی کی دکان ہے کہ ریوڑیاں بانٹ دی ہیں یہ جاہلانہ روانہ تھے ۔ کوئی جیالے کوئی متوالے بھرتی کرتا ہے ،کوئی اپنی برادری کو ریلوے کے ٹریک میں لنڈا بازار کی دکانیں لگوا کر دے رہا ہے ۔

یہ کوئی نیکی ہے؟ ۔ نام بدل بدل کر ٹرینیں چلائی جاتی رہیں،ایک ہی ٹرین کا جاتے ہوئے اور آتے او رہوئے نام ہے ۔ ریلوے کا مزدور کہتا ہے کہ وزیر کھاتا ہے ،سیکرٹری کھاتا ہے تو ہم دس ہزار کھا لیں گے تو کون سے قیامت آ جانی ہے یہاں ماضی میں یہ ہوا ہے ۔ جب اوپر لوٹ مار ہو گی تو نیچے بھی ایسا ہی ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ باہر نکلنے کا راستہ وہی ہے جو ہم نے مینجمنٹ نے تیار کیا ہے ۔

آگے جانے کا راستہ ہے کہ محنت کرو ،لوٹ مار کے پروگرام کو بند کرو ،اقربا پروری بالکل نہ کرو ،لاڈلوں پیاروں کو پروان نہ چڑھاؤ چاہے وہ وزیر ہوں یا مینجمنٹ میں ہوں‘ سب کو مل کر کام کرنا ہوگا جو پہیہ چلنا شروع ہوا ہے اسے دوڑانا ہوگا‘ میں آج بھی اپنے آپ سے مطمئن نہیں ہوں ۔ تباہی بہت بڑی ہے ایک ادارہ ٹھیک کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگ گیا ہے ” اور کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہے ، نہ گھر باہر اور نہ ہی اپنے کسی کاروبار کے قابل رہے ہیں ۔

ابھی ابتداء ہوئی ہے ابھی بڑا کام ہے ۔ یہاں کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی کہ پانچ سال بعد دس سال بعد ہم کہاں ہوں گے اور دنیا کہاں ہو گی ۔ جو گورا دے گا اسے خراب ضرور کیا ہے ،اسے مینٹین بھی نہیں کیا آگے جانے کی تو سوچ ہی نہیں تھی بلکہ اسکی تباہی برابر کی ہے ۔ لیکن اب آہستہ آہستہ حالات بدل رہے ہیں۔